کتابوں کو کسی پہرے کی ضرورت نہیں ہے
تحریر: نعیم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گزشتہ دن ایس ایس ایف کی جانب سے منعقد ہونے والے دو روزہ کتب میلہ کو ضلعی انتظامیہ خضدار نے سبوتاژ کیا، ساتھیوں کو دھونس دھمکیاں دی گئیں اور سنگین نتائج کا سامنا کرنے کا کہا گیا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انتظامیہ و دیگر زمہ داران خود اس طرح کی سرگرمیاں منعقد کرکے علمی ماحول کو پروان چڑھاتے اور علم دوستی کا ثبوت دیتے اگر یہ سب نہیں کر سکتے تھے تو کتاب دوست طلبہ کی حوصلہ افزائی ہی کی جاتی مگر الٹی گنگا کے مصداق طلبہ کے آئینی و قانونی حق پر ڈاکہ لگا کر قانون نافذ کرنے والے خود قانون شکنی کا مرتکب قرار پائے.
بلوچستان و بالخصوص خضدار میں روز اول سے ہی ایس ایس ایف کی سرگرمیوں میں نا معلوم وجوہات کی بناء پر انتظامیہ رکاوٹیں کھڑی کرتا آیا ہے جس کی حالیہ مثال یو ای ٹی خضدار و ڈگری کالج میں مطالعاتی مباحثوں کو سبوتاژ کرنا، سیلاب و بارشوں کے دوران بھوک و بیماریوں سے مرتے عوام کی اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کیمپ لگانے سے منع کرنا اور دیگر علمی ماحول کو فروغ دینے والی سرگرمیوں کو روکنا ہے.
گزشتہ دنوں جب کتب میلہ منعقد کرنے کے سلسلے میں انتظامیہ سے گفت و شنید ہوئی تو انہوں نے لائبریری میں کتب میلہ منعقد کرنے سے انکار کیا حالانکہ انتظامیہ کو کتب فہرست مہیا کرنے، انکے اپنے بندوں کی زیر نگرانی کتب میلہ منعقد کروانے و دیگر ہر قسم کی یقین دہانی کروائی گئی تھی، مجبوراً لائبریری سے منع کرنے پر جب ایس ایس ایف کے نمائندوں نے اسکول پرنسپل سے اجازت لیکر وقت و تاریخ مقرر کی اور کتابیں بھی منگوائی گئیں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات ، اساتذہ اور دیگر شخصیات بڑی بیتابی سے کتب میلہ کے انتظار میں تھے کہ اسکول پرنسپل و ڈی ای او صاحب نے اسکول میں تقریب منعقد کرنے سے منع کردیا وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ انکو انتظامیہ کی جانب سے جبراً منع کیا گیا ہے.
جب ساتھیوں نے انتظامیہ سے اس غنڈہ گردی کی وجہ دریافت کرنا چاہی تو بقول انکے کوئی وجہ نہیں ہے وہ با اختیار ہیں اور اجازت نہیں دینا چاہتے تو بس بات ختم ہماری منشاء کے آگے کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا.
کثیر تعداد میں طلباء و طالبات اور دیگر مکتبہ فکر کے افراد کی کتاب دوستی اور شدت سے کتب میلہ منعقد ہونے کے حوالے سے انکی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتھیوں نے جب عوامی جگہ پر کتب میلہ لگانے کا فیصلہ کیا تو انتظامیہ کی جانب سے کئی دوستوں کو فون کالز کرکے ڈرایا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور وجہ یہ بتائی گئی کہ انتظامیہ کو اوپر سے کوئی طاقتور طبقہ اس عمل کو روکنے کا حکم دے رہا ہے، بادل ناخواستہ طلبہ و عوام کو تعلیم دشمن غنڈہ گرد عناصر کے شر سے بچانے کی خاطر ساتھیوں کی مشاورت سے وقتی طور پر کتب میلہ موخر کیا گیا.
جب سوشل میڈیا پر مختلف میڈیا ذرائع نے اس شدید نوعیت کے تعلیم دشمن اقدام کی مزمت کی اور انتظامیہ سے وجوہات دریافت کی گئیں تو انکے بقول سیکیورٹی فورسز کی عدم موجودگی، حالات کی خرابی اور تعلیمی اداروں کی بندش اس عمل کی وجہ قرار پائی، اب یا تو انتظامیہ میں بیٹھے کمیشن پاس آفیسر عقل سے پیدل ہیں کہ انکو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ کتب میلے محض اسکول کے بچوں کےلئے نہیں ہوتا بلکہ ہر باشعور شہری کتابوں سے لگاو رکھتا ہے اور کتب میلہ منعقد ہونے والے روز مطالعے کا زوق رکھنے والے خواتین و حضرات اور طلباء و طالبات کا جم عفیر انتظامیہ کے کھوکھلے جواز والے منہ پر تمانچہ ہے، رہی بات امن و امان کی تو یہ انتظامیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زمہ داری ہے نہ کہ طلبہ کی.
ہر باشعور بلوچ ان ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہے کہ کون انتظامیہ کی ڈوریں ہلا رہا ہے کون ہے جس کو بلوچ کے ہاتھوں میں کتاب سے خوف ہے کیونکہ کتابوں سے شعور ملتا ہے اور کوئی بھی باشعور انسان غلامی قبول نہیں کر سکتا طاقتور کے سامنے نہیں جھکتا کسی مسلط کردہ شخصیت کے آگے پیچھے گھومنا اور جی حضوری کرنا وہ ہر گز تسلیم نہیں کریگا اور یہی وہ تمام وجوہات ہیں جس کی بناء پر بلوچستان بھر میں منشیات کے اڈے سر عام ہیں لینڈ مافیا کو کھلی چھوٹ ہے مگر کتابوں پر مکمل پابندی لگائی جارہی ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں