ڈیرہ جات میں حریت پسندی (حصہ پنجم)
تحریر: واھگ
دی بلوچستان پوسٹ
ڈیرہ جات میں رہنے والے بلوچوں کی طرف سے تاریخ کے ہر عہد میں دشمن کو مزاحمت کا سامنا رہا ہے گوکہ وہ مزاحمت کمزور رہی ہو یا انفرادی واجتماعی شکل میں رہی ہو لیکن مزاحمت کا سامنا دشمن کو ہر دور میں رہا ہے۔ بلوچ تاریخ کے اِس پہلو کو پڑھنے و سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے نسلوں تک تاریخی وراثت کو منتقل کیا جاسکے اور ہماری قومی شخصیات کے کردار تاریخ کے پنوں میں محفوظ ہوسکیں۔ بلوچ تاریخ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہو کہ کل کو یہاں رہنے والے بلوچ جو کئی ہزار سال قبل سے اس سرزمین و تہذیب کا وارث ہے، وہ اس سرزمین سے مہرو محبت اور تعلق کھو بیٹھے اور اس سرزمین کا وارث کوئی بھٹی ،چودھری ،گجر اور قریشی نہ بن جائے۔
گیارہ اپریل 1853 کو انگریزوں کے نوسو کی تعداد کی فوج جو جدید اسلحہ سے لیس تھی اور جس میں ہر درجہ کا فوجی دستہ موجود تھا انہوں نے کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے بلوچ مزاحمت کاروں کو کچلنے کی غرض سے قیصرانی قبیلے کے علاقے کے لئے روانہ ہوئے۔ جوں ہی دشمن درہ باٹھی کے مقام پر پہنچے تو بلوچ مزاحمتکاروں نے دشمن کے خلاف بڑے جوش و خروش اور جذباتی انداز میں جنگ کا آغاز کیا۔
انگریز فوج اور بلوچ مزاحمتکاروں کی جانب سے ایک دوسرے پر چھوٹے بڑے حملے کئے گئے۔ اس جنگ میں تاریخ دانوں کے مطابق بلوچوں کی قیادت یوسف خان قیصرانی(لکھانی بلوچ) اور انگریز فوج کی طرف سے بریگیڈ ہیگسن اور شہرت یافتہ انگریز میجر نکلن جو اس وقت کے کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے کر رہے تھے جن میں لیفٹیننٹ سی پی اکیاس اور لفٹننٹ ٹریورس بھی شاملِ تھے۔
شدید مزاحمت اور زبردست تقابل اور تصادم کے باوجود انگریزوں نے بلوچوں کی دفاعی لین کو نقصان دے کر ان کے مورچوں کو توڑ دیا اور باٹھی درہ سے باٹھی شہر جا پہنچی۔ باٹھی شہر اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں مٹی اور لکڑی کے بنے ہوئے مکانوں پر مشتمل تھی، انگریز فوج نے شہر کو آگ لگا کر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا البتہ وہاں کے ایک وڈیرے اور اس کے بیٹے کے گھر کو رہنے دیا گیا کیونکہ کہ ان پر کسی بھی شورش پسندی کا کوئی الزام نہ تھا۔
باٹھی شہر کے جلانے کے وقت قیصرانی بلوچوں کو اپنے گھروں سے کسی بھی اشیا کو اٹھانے کی مہلت نہ دی گئی اس طرح انگریزی تہذیب کے منحوس قدم بلوچ سر زمین پر پڑے۔
بلوچوں کے ریوڑ بھی پکڑ کر لے گئے حتیٰ کہ سکھوں سے بلوچ جنگ میں فتحِ یاب ہونے کے بعد جو چھوٹی توپیں،تلوار اور بندوقیں بھی انگریز گوج اپنے ساتھ لے گئے، جو وہاں رہنے والے بلوچوں کی قومی غیرت ،جواں مردی اور فتحیاب ہوکر لوٹنے کی علامت تھی۔ اصل میں یہ توپیں بندوق اور تلوار قیصرانی بلوچوں نے ساون مل کی سکھ فوج کو شکست دے کر اُن سے چھینی تھی۔
باٹھی میں انگریز فوجیوں کو پانی کے لئے کافی مشکلات کا سامنا رہا چنانچہ وہ باٹھی سے پہیڑ کی طرف روانہ ہوئے۔ قیصرانیوں نے چھاپہ ماروں کی صورت میں ان پر حملے کئے اور دشمن کے کئی فوجیوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا اور کئی درجنوں کو زخمی کیا گیا جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ بلوچوں کے ساٹھ جوان اس جنگ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہو ئے اور کئی زخمی ہوئے، اس جنگ میں جن فوجیوں نے حصہ لیا انھیں 1859 میں انگریزی فوج کی جانب سے ہندوستان میڈل نوازا گیا جس پر شمال مغربی سرحد کندہ تھا۔
بلوچوں کے پاس جدید اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے بلوچوں کو جسمانی طور پر تو بڑا نقصان کا سامنا رہا لیکن تاریخی اور بلوچ نفسیات کی رو سے وہ امر ہوگئے۔
اس کے بعد قیصرانیوں کا انگریزوں کے ساتھ رویہ جارحانہ رہا اور انہوں نے کئی موقعوں پر انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرکے انہیں جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ جب قیصرانیوں کی طرف سے انگریز فوج کو لوٹا گیا تو میجر نکلسن جو اس وقت یہاں کا ڈپٹی کمشنر تھا نے یہ تجویز دی کہ ان حملوں کو روکنے کے لئے صرف مزاحمت کاروں کو نہیں بلکہ یہاں رہنے والے تمام افراد کو جواب دے ٹہرایا جائے اور اُنہیں سزا دی جائے تب ہی ہم اس شورش کو ختم کر سکیں گے۔
میجر نکلسن نے اعلان کیا کہ اگر پہاڑی علاقوں میں انگریز فوج پر حملہ کیا گیا تو اس کی ذمہ دار اور جواب دے شہر میں رہنے والے لوگ ہونگےاور شہر ؤ میدانی علاقوں میں رہنے والے قیصرانی ان کی نیک چل چلن کی ضمانت دیں۔ انگریز فوج بلوچ آزاد قبائل کے معاملات میں بے جا مداخلت کرنے کی ہر وقت تلاش میں تھا اور بلوچ مزاحمتکار بھی انگریز فوج کے چالاکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ اس دوران بلوچ مزاحمتکاروں کا انگریز فوج پر حملوں کا تسلسل جاری رہا اور بلوچوں نے انگریز قبضہ میں لی گئی شہر ڈیرہ فتح خان میں جرات مندانہ حملے کئے۔
اس وقت یوسف خان قیصرانی کے قبضہ میں انگریزی عمل داری کا ایک دیہات بھی تھا اور اسی بستی میں ایک انگریز سرکار کا ملازم تھا جس کا نام مانکا تھا، جو پُراسرار اور مشکوک حالات میں لاپتہ ہوگئے چنانچہ اس کی گمشدگی کا الزام یوسف خان قیصرانی پر لگایا گیا اور قبضہ گیر کی طرف سے یوسف خان قیصرانی کو جواب دہ بنایا گیا۔ یوسف خان جو ایک غیرت مند بلوچ اور خود دار طبع ، آزاد مزاج اور مزاحمت کرنے والا بلوچ تھا، انہوں نے اس قبضہ گیر کی عدالتی حکم کو حقارت سے مسترد کردیا تھا۔
انگریزوں نے انتقامی جذبے سے یوسف خان قیصرانی کے بھائی کو گرفتار کرلیا اور ان کو پَس زِندان کر دیا گیا تاکہ اس جنگ کو روکا جا سکے لیکن کچھ وقت بعد زیر حراست یوسف خان کے بھائی اکبر نے جیل توڑ کر فرار ہونے کی کوشش کی تو ان پر فائرنگ کی گئی اور بعد ازاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔
اس اندوہناک واقعے کا شدید ردعمل ہوا۔ یوسف خان قیصرانی اور اس کے قبیلے کے افراد انگریز فوج کے خلاف جنگ میں کود پڑے اور یوسف خان قیصرانی تین سو پیدل اور چالیس گھوڑ سوار لے کر ڈیرہ فتح خان پر قبضہ کرنے کے لئے شدید حملہ کیا ۔
ڈیرہ فتح خان پر یوسف خان قیصرانی اور ساتھیوں سے پہلے اس نوعیت کا شدید حملہ پہلے بھی یہاں عظیم مزاحمت کار میر باز ،میر کالو اور گانمن کا سکھوں کی دور میں کیا تھا، جہاں بلوچ مزاحمت کاروں نے اُن کے ٹھکانوں پر چڑ ھ کر ان کو شکست دے کر ان کے ہتھیار اپنے ساتھ لے گئےتھے۔
یوسف خان اور اس کی غیور مزاحمت کاروں نے ڈیرہ فتح پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا اور انگریزوں کی طرف سے لائے گئے ہندوستان کے مہاجرین اور ہندوؤں کو یرغمال بنایا گیا اس جنگ کے دورانیہ میں قیصرانیوں کے تین جوان مٹی کا حق ادا کرنے کی کوشش میں مٹی سے جا ملے اور تاریخ میں امر ہو گئے۔
انگریز فوج کے ایک درجن لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے اور کئی زخمی ہوئے، جب فرنگیوں کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے عام لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے اور یوسف خان قیصرانی کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرنے کے لئے متحرک ہو گئے۔ انگریز فوج کے تھانیدار نے یوسف خان قیصرانی کا تعاقب کیا اور ان پر حملہ آور ہوئے، قیصرانی دفاعی پوزیشن پر مظبوط مورچوں میں تھے مزاحمتکاروں نے انگریزی فوج کا حملہ پسپا کر دیا اور اس معرکہ میں چھ انگریزی فوجی مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔
اس حملے کو قیصرانیوں نے منظم اور جرات مندانہ اقدام سے پسپا کر دیا اور رات دو بجے لڑائی اختتام پزیر ہوئی۔ فریقین اپنے زخمیوں اور لاشوں کو لے کر گئے شدید جنگ کے باوجود بھی بلوچ مزاحمت کار اپنے قیمتی سازوسامان کے ساتھ واپس جانے میں کامیاب ہوئے اور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا۔
قیصرانیوں کے خلاف معرکوں میں پے در پے شکست کے کچھ عرصہ بعد انگریزوں نے پہاڑوں میں رہنے والے قیصرانیوں پر انگریزی زیر قبضہ میدانی علاقوں میں آنے پر عائد شدہ پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ یوسف خان قیصرانی بیٹوں سمیت تمام قبیلوں کو اپنے گھروں اور گاؤں میں آنے کی اجازت دی۔
یوسف خان قیصرانی تو اس دوران وفات پا گئے لیکن ان کا مزاحمتی فکر اور نظریہ و سوچ آج بھی یہاں رہنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں