ڈیرہ جات میں حریت پسندی(حصہ ششم)
تحریر: واھگ
دی بلوچستان پوسٹ
انگریزوں کی آمد سے پہلے سکھوں نے بھی ساون مل کی قیادت میں بلوچ سرزمین پر کئی بار قبضہ گیر کی حیثیت سے چڑھائی کرنے کی کوشش کی لیکن بلوچ مزاحمت کاروں نے ساون مل کی قیادت میں سکھوں کے فوج کو منظم طریقے سے شکست دی اور ان کے ہتھیار اور چھوٹے ٹینکوں پر قبضہ کر لیا گیا۔
سکھوں نے ساون مل کی قیادت میں کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں بزدار قبیلے کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے لئے بزدار قبائل سے بڑی نوعیت کی جنگیں لڑیں، جہاں بزدار قبیلے کے غیرت مند فرزندان نے سکھوں کو عبرتناک شکست دی تھی۔
بزدار قبیلے کی باغیانہ سرگرمیوں کو جب سکھ حاکم روک نہ سکے اور ان پر اپنا تسلط قائم نہ رکھ سکے تو انہوں نے کوہ سلیمان کے بلوچ قبائل کو تنگ کرنا شروع کر دیا اور بلوچ روایات کے خلاف اقدام اٹھائے گئے جس کے نتیجے میں جنگی صورتحال پیدا ہوئی۔ سکھوں نے بزدار قبیلے پر فوج کشی کرنے کی کوشش کی جس کے خلاف بزدار قبیلے کے تمام افراد جنگ میں کود پڑے اور چند عرصے کے دوران سکھوں پر کئی مقام پر متعدد حملے کئے گئے۔
سکھ فوج درہ مہوی سے گزر کر بزدار قبائل کے حدود میں داخل ہوئے اور علاقے میں لوٹ مار شروع کردی اور گھروں و بستوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ بلوچ جہد کار سکھوں کے تاک میں بیٹھے تھے، ھان بند اور سنگر کے مقام پر مورچہ زن ہوئے اور جب سکھ قبضہ گیر فوج گزری تو ان پر چاروں اطراف سے حملے کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
سکھوں کے کئی فوجی اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد بلوچ قبائل نے سکھوں پر ڈیرہ جات کے مختلف مقامات پر حملے کیے اور ان کو بلوچ وطن سے نکال دیا گیا۔
سکھوں کے بعد بزدار قبیلے نے انگریز قبضہ گیر کے خلاف تاریخی جنگیں لڑیں لیکن قبضہ گیر کے دانشوروں نے بلوچ وطن کے محافظوں کو شر پسند اور دہشت گرد ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور لوگوں کو پیغام بھیجا کہ اگر کوئی بلوچ جہدکاروں کے ساتھ مل کر انگریز سرکار کے خلاف جنگ میں حصہ لے گا تو یہاں رہنے والوں کو اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
انگریزی قبضہ گیر فوج 6مارچ 1857 کو درہ سنگر میں داخل ہوئے اور ڈھداچی کے مقام پر قیام کیا۔اس تمام عمل کو بلوچ وطن کے محافظ دیکھ رہے تھے۔ ساتھ مارچ 1857کی صبح انگریزی فوج نے درہ ھان بند کی طرف روانہ ہوئے جس میں کئی فوجی رجمنٹ مکمل تربیت و اسلحہ سے لیس تھے۔
انگریزی فوج بھی ریاست پاکستان کی طرح تہذیب سے نابلد تھے جب انگریز قبضہ گیر نے بلوچ قومی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور بلوچ جہد کار سے جنگ میں شکست ہوئی تو بلوچ قبائل کے ہزاروں کی تعداد میں مال مویشیاں قبضے میں لئے اور بلوچ قبائل کے گھروں کو لوٹنے کے بعد ان کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔
بزدار قبائل کے لوگ محمود بلوچ کی قیادت میں ھان بند کے مقام پر مورچہ زن تھے جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور ان کے پاس کسی قسم کی کوئی جدید ہتھیار موجود نہیں تھے۔ انگریز فوج ھان بند کے قریب پہنچی تو دونوں اطراف سے بڑی نوعیت کی جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں انگریز فوج کے ساٹھ ( 60 ) سپاہی ہلاک ہوئےاور کئی درجن زخمی ہوئے۔ اور بلوچ وطن کے بیس بہادر نوجوان وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
انگریز افواج سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے فرزندوں میں جنگ کی قیادت کرنے والے محمود بلوچ ، ہوران بلوچ ، شکل بلوچ اور اُن کے چھوٹے بھائی دودا وطن کی محبت میں امر ہو گئے۔
انگریز افواج کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے والے عظیم فرزند محمود بلوچ ایک ماہر جنگی کمانڈر تھے۔ جب انگریز سرکار کی فوجی قافلہ چروٹ کے مقام پر پہنچی تو مورچے میں موجود محمود کے زخمی ساتھی نے کہا محمود میں اس حالت میں میں فوجی پیشقدمی کو روک نہیں سکتا اور اب دشمن کو روکنے کی ذمہ داری تمہارے کندھوں پر ہے ۔ محمود بلوچ زخمی ساتھی سے مخاطب ہوئے ہوسکتا ہیکہ میں دشمن کی پیشقدمی روک نہ سکوں لیکں اپنی آخری سانس تک لڑتے ہوئے خود کو بلوچ سرزمین کے لئے قربان کردوں گا۔ محمود نے انگریز افواج کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی اور کئی انگریز فوجیوں کو ہلاک کیا لیکن وہ خود دشمن کے گولیوں کا نشانہ بن کر امر ہوگئے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی اتارے جو واجب بھی نہ تھے
انگریز افواج بلوچوں سے پے در پے شکست کھانے کے بعد دوبارہ منظم ہوئے اور بڑی لشکر کے ساتھ سنگڑا پہنچ کر بزدار قبیلے پر حملہ آور ہوئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ برطانوی فوج برگیڈیئر چمرلین کی قیادت میں تونسہ سے ھان بند کی طرف روانہ ہوئی اور بلوچ قبائل کے طرف سے بھی تسلسل کے ساتھ اُن پر حملے ہوتے رہے۔
انگریز افواج اور بلوچ قبائل کے درمیان ایک مہینے تک پر ھان بند اور قریب ؤ جوار میں حملے جاری رہے لیکں انگریز افواج بلوچ قبائل کو زیر کرنے میں ناکام رہے اور اِن حملوں میں انگریز افواج بڑے نقصانات اٹھانے پڑے۔
جنگ میں شکست کے بعد انگریز فوج نے قبائل کے کھڑی فصلیں جلا دیے، گھروں کو لوٹ کر جلا دیا گیا اور لوگوں پر جرمانہ عائد کر دیا گیا تھے۔ انگریز فوج کو بزدار علاقے میں سردار عاشق خان کی مکمل حمایت حاصل تھی جس کے عوض انہیں 2500 روپے ماہانہ اجرت دی جاتی تھی۔
بلوچ سماج میں دشمن کے خلاف لڑنے اور وطن کے لئے قربان ہونے کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج بھی بزدار علاقے میں لوگوں کو مشکلات پیش آئے تو وہ ان شہیدوں کو ہکل یعنی آواز دیتے ہیں اور جا کر ان شہیدوں کے آرام گاہوں سے گَل یعنی مٹی اس امید سے اٹھاتے ہیں کہ وطن پر قربان ہونے والے بلوچ فرزند ذندہ و جاوید ہیں اور ہماری مشکلات کو آسان کریں گے۔
شہید محمود بزدار بلوچ، شہید ہوران بلوچ اور ان کے دو ساتھیوں کی آرام گاہیں یونین کونسل فاصلہ کچھ کے بستی حسن شاہ میں ہیں جبکہ دونوں بھائیوں شہید شکل بزدار اور دودا بزدار کی آرام گاہیں کچھی ونگہ کے مقامی قبرستان مھلہ شفی میں موجود ہیں اور باقی شہدا کی آرام گاہیں ان کے آبائی گاؤں میں ہیں۔
بلوچ سرزمیں کی حفاظت کے لئے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے کئی فرزند گمنام میں لیکن وہ بلوچ وطن کی محبت میں اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مزاحمت کے فلسفے پر عمل پیرا ہو کر بلوچ تاریخ نقش ہوگئے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں