قدرتی ذخائر سے مالا مال ڈیرہ بگٹی پسماندگی کا شکار ۔ ایم کے بلوچ

312

قدرتی ذخائر سے مالا مال ڈیرہ بگٹی پسماندگی کا شکار

تحریر: ایم کے بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی جہاں سوئی گیس فیلڈ، پیرکوہ گیس فیلڈ، اچ گیس فیلڈ، لوٹی گیس فیلڈ جیسے قدرتی وسائل جو پورے پاکستان میں گیس فراہم کرتا ہے اور یہاں سے نکلنے والی گیس کے زخائر سے حکومت پاکستان روزانہ کھربوں روپے کماتا ہے۔اس علاقے کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل ہونے اور ذخائر کا مالک ہونے کے باجود یہاں کی عوام گزشتہ دو دہائیوں سے لکڑیاں جلانے پر مجبور ہیں۔جس صوبے سے گیس نکلتا ہے اس صوبے کو گیس پہنچانا تو دور کی بات، جس شہر سے گیس نکلتا ہے وہی محروم ہے۔ قدرتی گیس کا فائدہ سرمایہ کار کمپنیوں اور اداروں کو ہورہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کمپنیاں چلانے کیلے اور ہزاروں کلومیٹر دور پنجاب کے کونے کونے میں تو گیس پہنچائی جاسکتی ہے۔لیکن چند کلومیٹر فاصلے پر واقع مقامی لوگوں کو نہیں، یہ ہے دو قومی نظریہ۔

یہاں پر نہ صرف گیس بلکہ بجلی ،پانی کی قلت اور بنیادی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بے روزگاری کی شرح حد سے بڑھ چکی ہے۔تعلیمی نظام درہم برہم ہوچکے ہیں۔ آج کے جدید دور میں بھی عوام خستہ حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

صحت کے حوالے سے بھی ڈیرہ بگٹی میں سہولیات کا فقدان ہے لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے دوران زچگی کئ خاتون نومولود بچے سمیت جاں بحق ہوئے ہیں۔ان اموات کا زمہ دار کون ہے؟

ذرائع معاش کا کوئی انتظام نہیں۔گیس فیلڈ میں افسر تو دور کی بات ورکرز اور چوکیدار تک پنجاب کے لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں۔اور یہاں کی عوام دربدر خانہ بدوش سی زندگی گزار رہے ہیں۔لوکل عوام کی حق مار کردوسرے صوبے کے لوگوں کو نوازا جارہا ہے۔اور ان ظالموں سے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں۔

ڈیرہ بگٹی کے کئ خاندان بے سروسامانی اور بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔

کچھ غریبوں کی آمدنی کا زریعہ کاشت کاری تھا۔ جہاں کچی کینال کے شاخ سے پانی ملتا تھا۔ کاشت کاری سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے لیکن حالیہ ہونے والے سیلاب میں کچی کینال کی شاخ ایک جگہ سے ٹوٹ گئی۔جسکی وجہ سے پانی بند کردیا گیا۔لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باجود حکومت وقت تاحال اس کی مرمت تک نہیں کرواسکی۔لاکھوں خاندان بے روزگاری اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرکے مختلف علاقوں میں آباد ہورہے ہیں۔

گزشتہ سال پیر کوہ ڈیرہ بگٹی میں پانی کی قلت کی وجہ سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوگئے تھے۔جسکی وجہ سے بیماریاں پھیل گئیں اور کئ معصوم بچے تڑپ تڑپ کر موت کی گھاٹ اتر گئے۔لیکن ابھی تک وہاں کوئ مستقل واٹر سپلائ کا اسکیم نہیں بنایا گیا۔آنے ولے مہنیوں میں دوبارہ وہی کربلا کا میدان بنے گا کیونکہ حکومت کبھی وقت پر کام نہیں کرتا۔اور ہمارے سلیکٹڈ حکمرانوں کا پیٹ بھی تو یہیں سے بھرتا ہے۔بس کوئ بڑا سانحہ یا واقعہ ہو تو ان کو فنڈز وغیرہ کھانے کا موقع ملتا ہے۔

بے بس ولاچار اور ہر قسم کی مسائل سے دوچار عوام نے ہر ادارے کے سامنے اپنی فریادیں رکھیں،احتجاج کیے پی پی ایل سوئ گیس فیلڈ کے گیٹ کے باہر اپنے حقوق کیلے کئ مرتبہ دھرنے دیے۔وزراء کے سامنے اپنے مسائل بیان کئے لیکن عوام کی آواز سننے والا کوئ نہیں۔یہاں کے ادارے اور حکومتی نمائندے مسائل حل کرنے کے بجائے گیس فیلڈ کے زمیداروں سے اپنا رائلٹی اور پرسنٹ لیکر عوام کو دبائے رکھے ہوئے ہیں۔

دو دیہائیوں سے یہاں جتنے بھی ریاست کے سلیکٹ کئے ہوئے حکمران مسلط کیے گئے۔انہوں نے ہمیشہ اپنی زاتی مفادات کو ترجیح دیا اور یہاں کے شہریوں کے مسائل پر کوئ توجہ نہیں دی۔

موجودہ ایم پی اے ،ایم این اے اور سینٹر صاحب جنہوں نے الیکشن سے پہلے بڑے بڑے وعدے کئےتھے؟ کیا وہ اپنے وعدے بھول گئے کہتے تھے کہ ہر گھر میں گیس،پانی،بجلی دینگے روزگار کے مواقع فراہم کرینگے۔ سرکاری نوکریوں پر میرٹ کرینگے۔اب تو انکے سربراہی میں میرٹ کا جنازہ اٹھایا گیا،سرے عام گورنمنٹ کے نوکریوں پر بولیاں لگ رہی ہیں۔افسوس وہ اپنے وعدوں اور دعوں کے جھوٹے نکلے۔حیرت کی بات ہی کہ ایک ہی ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک بھائ ایم پی اے دوسرا ایم این اے اور ایک اسی ضلع کا سینٹر بھی ہے۔ایک ضلع کے پاس تین وزارتیں ہونے کے باوجود بھی عوام کی حالت زندگی خراب ہے۔بس یہ سب نااہل حکمران اپنا رائلٹی اور پرسنٹ کے چکروں میں لگے ہوئے ہیں۔

یہاں میڈیا پر بالکل پابندی لگی ہے۔کوئ بھی خبر نشر کرنے سے پہلے انکو اپنے آقاوں سے اجازت لینی پڑتی ہے۔کیا بولنا ہے کیا نہیں کیا دکھانا ہے کیا نہیں وہ سب آقاوں کی مرضی سے طے ہوتا ہے۔ چند ماہ پہلے سوئی کے ایک شہری کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئ

جو لکڑیاں کاٹ رہا تھا اور اپنی داستان سنایا کہ ہم بلوچ ہیں اسلیے ہمیں گیس و بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی۔ جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئ تو اس بندے کو پریشرائز کرکے دوبارہ ویڈیو بنوایا گیا کہ کہو صرف ہمارے چند گھروں میں گیس نہیں باقی سب کے پاس ہے۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کا میڈیا اور یہاں کے نمائندے کس کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔

افسوس اپنی قسمت پر کہ اس ریاست نے ہمیں اپنے ہی سر زمین پر غلاموں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ہمیں کوئ انسانی حق حاصل نہیں۔

یہ ریاست جو پہلے سرداروں اور نوابوں کو ترقی کا دشمن کہتا تھکتا نہیں تھا ۔اب دو دہائیوں سے یہاں ریاست کی حاکمیت ہے۔ہم نے سوائے ظلم و ستم اور جبر کے اس ریاست سے کچھ نہیں پایا ہے۔ریاست نے شہد کی نہریں دینا تو دور کی بات عوام کو پانی کی بوند بوند اور روٹی کے ٹکڑوں کیلے بھی ترسایا ہوا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں