عظیم سْیاسی کارکن ۔ ڈاکٹر شکیل بلوچ

538

عظیم سْیاسی کارکن

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک عظیم سْیاسی کارکن سب سے پہلے اپنے مقصد اور نظریے کا تعین کرتا ہے، کہ میری سْیاسی سمت کیا ہے۔ بغیر نظریے کے کوئی شخص اپنا سْیاسی راستہ تعین نہیں کرسکتا، نظریے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، مذہبی، سْیاسی وغیرہ وغیرہ۔ نظریہ کے لغوی معنی “نظر سے دیکھنا” ہے، یعنی اس سے مراد آپ معاملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، اور انکے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔

قوم پرستی ایک نظریہ ہے، جس سے مراد آپ اپنے خاندان، قبائل، نسل سے بالاتر ہو کر اپنے ترجیحات میں سب سے بالا اپنے قوم کو سمجھتے ہیں، اور قومی مفادات کے لئے ہر طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ ایک قوم پرست سْیاسی کارکن اپنے قوم کو افضل تر سمجھ کر ان کے مسائل کو مختلف نقطہ نگاہ سے دیکھ کر انکے حل کیلئے شب و روز جدوجہد کو تواتر کے ساتھ جاری رکھتا ہے، بلا ان کو اپنے قومی معاملے پر کٹھن اور مشکلات کیوں درپیش نہ ہو۔

ایک عظیم سْیاسی کارکن کیلئے تکالیف اور مشکلات کوئی معنی نہیں رکھتے، ان کو اپنے قوم کے ساتھ ایسی عشق ہوتی ہے، وہ اپنا ہر قدم سوچ و سمجھ کر رکھتا ہے کہ میرے اس عمل پر قوم کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوگا، ہر وقت انکی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے پسماندہ اور محکوم قوم کے چرواہے، بزگر، کسان، مزدور سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو قومی اور اجتماعی شعور اور تربیت دے کر انکو قومی مسائل سے آگاہی دے کر ان کو مشترکہ جدوجہد کی طرف مائل کرتی ہے۔

ایک عظیم قوم پرست سیاسی کارکن اپنے قول و فعل سے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھاتا جنکے قول و افعال سے قوم داغ دار ہو، بلکہ وہ دیگر اقوام کے سامنے اپنے رویے اور کردار کو ایسا پیش کرتا ہے کہ وہ انکے قوم کی وقار و عظمت دوسروں کے سامنے بلند و بالا ہو۔

ایک عظیم سْیاسی کارکن دیگر ممالک کے تعلیمی اداروں، شہر وبازاروں میں خود کو اپنے قوم کی پوری عکس سمجھ کر قوم کی عزت اور وقار کو محفوظ رکھتا ہے، انہیں یہ ؐمحسوس نہیں ہوتا کہ وہ خود چل پِھر رہا ہے بلکہ وہ خود کو اپنی پوری قوم تصور کرکے ایسا اقدام اٹھاتا ہے کہ کل کے دن انکے اس عمل پر قوم کو کوئی بُرا بھلا نہ سمجھے۔

تعلیمی اداروں کے اندر وہ اپنے ٹیچر، انتظامیہ اور اسٹاف کے ساتھ دوستانہ اور مہزبانہ انداز میں پیش آتا ہے، ایک سْیاسی کارکن اور عام طالب علم کے اٹھنے اور بیٹھنے میں کافی حد تک فرق پائی جاتی ہے، کیونکہ ایک عام طالب علم صرف اپنی تخصیصی شعبے میں ایک ادارہ کے اندر تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے جبکہ ایک سْیاسی کارکن بیک وقت دو اداروں میں تربیت حاصل کر رہا ہوتا ہے، ایک انکا تخصیصی شعبے کا ادارہ یعنی اسکول، کالج، یونیورسٹی اور دوسرا انکا سْیاسی ادارہ ہوتا ہے، جن کے پلیٹ فارم پر وہ ایک عظیم اور وسیع سوچ پر حامل ہر معاملے کو باریک بینی سے دیکھتا ہے، سمجھتا ہے اور انہیں حل کرنے کا راستہ ڈھونڈتا ہے، وہ اپنے مہزب دیوان اور مجالس کے اندر اٹھنے، بیٹھنے اور بات کرنے کا سلیقہ سیکھتا ہے، ان کا قربت مختلف الخیال اور سوچ رکھنے والے لوگوں سے ہوتا ہے، انہیں دوسروں کے نفسْیات معلوم ہوتا ہے اور وہ انکے ساتھ باکردار اور مہزبانہ طریقے سے پیش آکر ان سے مشفقانہ اور دوستانہ طریقے سے پیش آتا ہے تاکہ ان کے افعال اور کردار سے دوسروں کو کوئی دکھ و زک نہ پہنچے۔

ایک عظیم سْیاسی کارکن اپنے قول و فعل اور کردار سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ انکے اخلاق کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا انکی باتوں میں ایسی تاثیر ہوتی ہے، جن سے مل کر دوسروں کو اپنائیت محسوس ہوتی ہے، عام لوگ ان سے ملکر امیدیں وابستہ کرنے لگتے ہیں، کیونکہ وہ قوم کی امیدیں انکے نوجْوانوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔

ایک عظیم سْیاسی کارکن دوسروں سے زرہ برابر توقعات نہیں رکھتا، کیونکہ سْیاست کے اندر مایوسی کا سب سے بڑا عنصر دوسروں پر توقعات رکھنا ہے، سْیاست ایک قومی خدمت ہے، ہر ایک سْیاسی کارکن اپنے پیشے کو قومی خدمت سمجھ کر اپنے قوم کے ہر فرد کی عزت و احترام کرنے کے ساتھ ساتھ انکی خدمت کرنی ہے، اگر ایک سْیاسی کارکن نے قوم کے کسی فرد کیلئے کوئی اہم کام سر انجام دیا اور پھر ان سے توقعات وابستہ کی کہ کل کے دن انہیں میرا کوئی کام کرنا ہوگا یا وہ میرے کام آئے گا تو یہ عمل عنقریباََ انکے مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔ سْیاست کے اندر ایک عظیم سْیاسی کارکن خود کو قوم کا اثاثہ سمجھ کر بغیر کسی مرات اور توقعات کے قوم کی خدمت کرتا ہے۔ یہی خصوصیت ایک سْیاسی کارکن کو سب سے بالا اور افضل کرکے قدم بہ قدم انہیں ایندھن پہنچاتی ہے، وہ اپنے فرائض سے کبھی تھکن اور تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا، بس وہ کسی بھی حکمت عملی اور طریقہ کار ڈھونڈ کر اپنے فرائض کو بہتر انداز میں سر انجام دیتا ہے۔

ایک عظیم سْیاسی کارکن اپنے نفسانی خواہشات پر بالکل قابو کرتا ہے، وہ اپنے سْیاسی پلیٹ فارم اور تعلیمی ادارے میں موجود خواتین کے ساتھ اپنے قومی اقدار، قوائد وضوابط کو سامنے رکھتے ہوئے انکے ساتھ مہزبانہ طریقے سے پیش آتا ہے، تاکہ اداروں کے اندر انکے قومی اقدار پر دوسرے قوم کا کوئی فرد کوئی غلط سوال نہ اٹھائے۔ سْیاسی پلیٹ فارم پر تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ایک بلوچ کی تربیت پیدائشی طور ایک بلوچ معاشرے میں پرورش پاتے ہوئے مہزبانہ پرورش ہوتی ہے، بلوچ قومی رسم و رواج اور Code of Ethics انہیں ایسے سلیقہ سکھاتے ہیں جنکو کہیں بھی اور کسی بھی نصابی کتاب میں نہیں ملتی۔ ایک مہزب قوم سے پرورش پاتے ہوئے ہمیں اپنی قومی اقدار کی عزت اور احترام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہی اقدار ہمارے اندر قومی جزبات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں، یہی جزبات ہمیں اپنے قومی اثاثوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ایندھن پہنچاتے ہیں۔ آج کل ایک سوچے سمجھے پالیسی کے تحت جدیدیت اور ماڈرن دور اور مختلف اصطلاحات کے نام پر قومی اقدار کو روندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ایک عظیم قوم پرست سْیاسی کارکن کبھی بھی اپنے قومی قوائد و ضوابط اور اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا چاہے انکو کتنی بھی مشقت اور مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو لیکن قومی اقدار کی حفاظت کیلئے وہ خود کو قربان کرنے کیلئے نہیں زرہ برابر نہیں کتراتہ۔

وہ اپنے سْیاسی پلیٹ فارم کے اندر اختلافات ضرور رکھتا ہے لیکن سْیاسی پلیٹ فارم کے باہر وہ اپنے دیگر سْیاسی ساتھیوں کی عزت اور احترام کرتا ہے۔

ایک عظیم قوم پرست سْیاسی کارکن کبھی لالچی اور خود غرض نہیں ہوتا، اگر کسی کارکن کے اندر زراہ برابر لالچ اور خود غرضی پائی جائے تو وہ ایک نام نہاد سْیاسی کارکن ہوسکتا ہے لیکن ان میں نہ نظریاتی پختگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی وہ ایک عظیم سْیاسی کارکن کہلانے کا مستحق ہوگا۔ لالچ انسان کی سب کچھ برباد کرتا ہے، لالچی لوگ کسی بھی وقت اپنے مقصد اور نظریہ پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں، ایک لالچی انسان سے عظیم توقعات رکھنا اور ان سے وابستہ کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

ایک عظیم سْیاسی کارکن درمیانہ اور نرم مزاج جیسے خصوصیت کا حامل ہو کر کبھی بھی دوسرے ساتھیوں کا مزاق نہیں اڑاتا، بلکہ وہ اپنے گفتگو اور بات چیت کے دوران مہزب اور اچھے الفاظ کا چناؤ کرتا ہے تاکہ انکی باتوں سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ رشتوں اور تعلقات میں دراڑ کا سب سے بڑی سبب گفتگو اور باتوں کے اندر غلط اور مزاحیہ الفاظ کا چھناؤ ہوتا ہے جن سے عظیم رشتے سست پڑ جاتے ہیں۔

ایک عظیم سْیاسی کارکن اپنے دوسرے ساتھی کو شیرینی لہجے کے ساتھ انکے اپنے نام سے پکارتی ہے، کیونکہ ایک انسان کو اپنا نام انتہائی محبوب ہوتا ہے، جب انکا اپنا نام لیکر انہیں بلایا جائے تو یہ آواز انکے زہن میں ایک مٹھاس آواز بن کر آپسی رشتے کو زیادہ مضبوط کرتی ہے ایک دوسرے کے ساتھ اپنائیت محسوس کی جاتی ہے۔

چونکہ سْیاسی تنظیم کسی ادارہ سے کم نہیں ہوتا بلکہ ان سے ہزار گناہ زیادہ بہتر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ادارہ ایک انسان کو خود کو انفرادی اور خودی سے نکال کر انہیں قومی اور اجتماعی بنا دیتی ہے، انہیں ایک کامل انسان بناتی ہے، انہیں یہ قابل بنا دیتی ہے کہ وہ بلا جھجک سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے میں کوئی کوتاہی اور حامی نہ بھرے۔ ایک عظیم سیاسی کارکن اپنے تنظیمی کاموں کیلئے کوئی کمی و کوتاہی نہیں کرتا بلکہ وہ ہمہ وقت اپنے زمہ داریوں پر پورا اترتا ہے۔ ان کے اندر صبر و برداشت کی بے شمار خاصیت پائی جاتی ہے۔ یہی خصوصیت ایک عظیم سْیاسی کارکن کو کندھن بنا دیتی ہیں اور پھر وہ اپنے قومی زمہ داریوں اور مقصد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، ایسے لوگ مستقبل میں قوم کے حقیقی لیڈر بن جاتے ہیں، انہیں نہ کوئی تاریک رات ڈرا سکتی ہے اور نہ کوئی دشوار گزار اور کانٹے دار راستہ روک سکتی ہے۔ وہ تمام مشکلات کو پار کرکے اپنے منزل تک پہنچتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں