ضیاء دلجان کا خط اپنے بچوں کے نام ۔ بیبرگ بلوچ

849

ضیاء دلجان کا خط اپنے بچوں کے نام

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حوصلے کے دریا میں نہانے والے وطن زادوں اور خمیرِ بلوچستان کی مہک پانے والے میرے عزیز فرزندوں!

میں اس حقیقت کو حرف بہ حرف جانتا ہوں کہ آپ میری جدائی اور فرقت کے بارے میں بہت سوچتے ہونگے اور کئی مرتبہ آپ کی آنکھیں بھی اشکوں سے لبریز ہوئی ہونگی۔مگر یہ جدائی ایک طویل ، پُرمسرت اور فرض شناسی کے بعد ملن کے لیئے ہے۔آپ سمجھ رہے ہیں کہ طویل اور پُرمسرت ملن سے میری مُراد کیا ہے۔ میں وطن کی آزادی اور غلامی سے چھٹکارا پانے کی بات کررہا ہوں۔ایک فرض شناس والد اور ایک قومی جہد کار کی حیثیت سے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ اپنے فرزندوں کی تربیت کروں ، انہیں مصائب و مشکلات سے آگاہ کروں اور آزادی کی حقیقی جنت ، غلامی کی دوزخ کے بارے میں بتاتا چلوں۔ آج محض میں ہی آپ سے مخاطب نہیں ہوں بلکہ بلوچستان کی مٹی اور اس پر گرنے والے شہداء و غازیوں کے خون کے قطرے آپ سے مخاطب ہیں۔ دشمن کے یزیدی خیموں کے طنابیں اکھاڑنے کے لیئے جس انداز میں آپ جسمانی طور پر میرے شانہ بشانہ رہے ہیں وہ ایک قومی جہد کار خصوصاََ ایک باپ کے لیئے حوصلہ انگیز اور قابل فخر ہے۔

میں جانتا ہوں کہ آپ میں آفاق کو جَوتنے اور دشمن کی مصنوعی تاریخ کی بنیادوں کو ہلانے کی قوت ،صلاحیت و حوصلہ موجود ہے۔آپ محض ایک فرض شناس باپ کے بیٹے ہی نہیں ہو جس کی منزل قومی آزادی ہے بلکہ ایک ایسے دھرتی کے بھی فرزند ہو جس کی سرشت میں غلامی کے خلاف برسرِ پیکار رہنے اور قابض کو شکست دینے کا بیج بویا گیا ہو۔آپ جانتے ہیں کہ جس طرح میرے دل و دماغ نے دشمن کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کی اسی طرح میرے کارتوسوں نے بھی دشمن کی کھوپڑی پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کی۔

میرین : میرے فرزند!

آپ کو پہلا تربیتی سبق یاد ہوگا جو ایک عام فرد اور ایک فرض شناس قومی جہدکار کے درمیان فرق کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔میں نے آپ کو دشمن کے مزاج اور اسکی چالاکیوں کے بارے میں جتنا کچھ سکھایا اسے حرف بہ حرف یاد رکھنا اپنا فرض عین سمجھ کر ذہن میں رکھنا۔ یہ اصول کھبی نہیں بھولنا کہ آپ کو ہمیشہ دشمن کی سوچ سے ایک قدم آگے سوچنا ہے۔ آپ اپنی حکمت عملیاں معروضی حالات کو سامنے رکھ کر بنانا اور ایک قومی جہد کار کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ آزادی کی تحریک کا سپاہی اور اثاثہ ہے اس لیئے اس کے تمام عوامل کا قوم، قومی تحریک اور قومی مزاج کے گردگھومنا ضروری ہے۔آپ کو بندوق کے ٹریگر ، بیرل ،میگزین ، فرنٹ سائٹ ، ریئر سائٹ اور وزن کے بارے میں دیئے گئے اسباق کو دہرانا ضروری ہے تا کہ آپ کسی بھی مشکل محاذ میں دشمن سے نمٹ سکے۔آپ کو گوریلا جنگ کے اصولوں کا اطلاق اپنے معروض پر کرنا چاہیئے، نئے نئے تجربوں سے آشنا ہونا چاہیئے۔آپ کو فائرنگ کے اصول بھی یاد ہونگےجن میں درست شصت، درست پکڑ ، ٹریگر کنٹرول اور سانس پر قابو پانا شامل ہیں۔آپ موقع محل کی مناسبت سے سٹنگ پوزیشن ، نیلنگ پوزیشن وغیرہ کو بھی استعمال میں لاسکتے ہیں۔یہ وہ اسباق ہیں جن کی تمہیں ان حالات و و واقعات میں کھبی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔آپ نے ایک ہونہار شاگرد کی طرح تربیت لینے میں جو دلچسپی دکھائی یہی ایک آزاد اور خودمختار وطن کے سپاہی اور سالار ہونگے۔

میرا دوست ،اور فکری ہمسفر ، میرا فرزند قمبروں کی جان انہی بارودوں نے لے لی جسے دشمن کو نیست و نابود کرنے کے لیئے ہم استعمال کرتے تھے۔لیکن میری طرح قمبر بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ وطن کے دفاع کے لیئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہماری اولین فرائض میں شامل ونا چاہیئے اور ہم نے یہ فرض نبھایا بھی۔قمبر نے ایک حقیقی وطن زادہ ہونے کا ثبوت دیا اور اپنے شفیق باپ کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنی جان دیدی۔میرین میں آپ میری جدائی اور تنہائی پر پریشان نہ ہو کیوں کہ میری جدائی بلکہ وطن کی راہ پر مٹنے والے ہر ہر فرد کی جدائی ہمیں ہماری منزل سے قریب تر لارہی ہے۔یہی نہیں بلکہ ہم راتوں کو دیوان سجاتے ہیں ، قمبر میرے گود میں کھیلتا رہتا ہے اور میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے۔میں ،بارگ، امیر جان اور حقنواز وطن ،قوم اور آزادی پر طویل مباحثے کرتے ہیں۔ ہنستے ہیں ،قہقہے لگاتے ہیں کیونکہ ہم دشمن کی مستقبل کو دیکھ چکے ہیں۔

دشمن نے ایک ایسی سرزمین پر قدم رکھا ہے جس نے سکندر مقدونی (سکندر اعظم) سے لیکر ایرانی ایمپائر تک اور پُرتگیزیوں سے لیکر انگریزوں تک کو جس شکست سے دوچار کیا وہ تاریخ کے انمٹ نقوش ہیں۔ چند باتیں اور یاد رکھنےکی ہیں آپ اپنے سرزمین کے بلند و بالا اور پُرعزم پہاڑوں خصوصاََ ،چلتن ، مہردار ، ماران ، راسکوہ ،نودگوار ، ساہیجی، درنیلی ، کوئے سیاہ اور پیمازی سمیت ہر اُس محاذ سے شدید لگاؤ رکھنا جو دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔آپ نے آنے والے 19 فروری کو ذہن میں رکھا ہوگا جس دن میری جدائی کو پانچ سال پورے ہونگے لیکن میں بحیثیت ایک استاد کے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہم ایک آزاد دھرتی ، ایک دلکش سرزمین اور عشق و مہر کی جمالیات سے لبریز بلوچستان میں دوبارہ ملیں گے۔

آپکا استاد : ضیاءالرحمٰن عرف دلجان


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں