شاری معصوم لوگوں کی قاتل۔۔۔ – ڈاکٹر ہیبتان بشیر

3198

شاری معصوم لوگوں کی قاتل۔۔۔

تحریر: ڈاکٹر ہیبتان بشیر

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ، تشدد اور اسکی وجہ سے جو تباہی، ابتری، درد اور تکلیف ہے، وہ ہمارا انتخاب نہیں بلکہ ہماری مجبوری ہے، ہم اس بات سے انکاری نہیں کہ جنگ اور تشدد تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ جنگ ایک بیماری اور ناسور ہے اور بد قسمتی سے اس کا علاج بھی جنگ ہے۔ ہم اس بات پہ انکاری نہیں کہ جنگ کی وجہ سے ہم سے ہماری قیمتی جانیں ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے ہیں اور یہ جنگ ہمارے پیاروں کی درد اور تکلیف کی وجہ بنی ہوئی ہے، آگے بھی ہم انکے لئے مکمل طور پر اپنے روح، دل اور ذہنی حوالے سے تیار ہیں، اور اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ ہم پر بزور طاقت مسلط کی گئی ہے، ہمیں بزور طاقت اس جنگ کی طرف دھکیل دیا گیا ہے، کیونکہ قبضہ گیر کی طرف سے ہماری گل زمین پہ حملہ کرکے مکمل ہماری تباہی اور اس کرہ ارض پہ ہمیں ملیامیٹ کا پروگرام تیار کیا جاچکا ہے، اس میں اب تک اگر کچھ دیر ہے یا ہم اپنی قومی شناخت اور بقاہ کو قائم کئے ہوئے ہیں وہ بس اس قبضے، ظلم اور غلامی کے خلاف بلوچ قومی تحریک میں بلوچ جہدکاروں کی مزاحمت اور بلوچ گوریلوں کی جنگ ہے۔

کچھ سادہ لوح یورپ، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ ہم بھی انہی کی طرح انسانیت پرست اور مہذب بن کر اپنی انسانی حق کے لئے جدوجہد کریں اور اپنی انسانی حقوق کا مطالبہ کریں وہ شاہد یہ بھول جاتے ہیں کہ آج وہ ان کی مثالیں دے رہے ہیں وہ اس سے بھی بدترین جنگوں سے گزر ہے ہیں۔ آج وہاں انسانی آزادی، بات کرنے کی آزادی، ایک انسانی معیار پہ انسانی زندگی گزارنے کہ سارے مواقع ان کے پاس موجود ہیں، جو طویل، خونریز اور قیمتی انسانی جانیں قربان کرکے اس مقام تک پہنچے ہیں، شاہد اگر وہ چاہیں وہ کسی بھی نظام کے خلاف بغاوت کریں تو وہ اس نظام کو بدلنے میں آزاد ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ اور بقاہ نظام بدلنے میں نہیں بلکہ ہماری قومی آزادی ہے۔

آج اگر ہم اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑنے میں دیر کرتے تو آج قبضہ گیر اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ارمان پورے ہوچکے ہوتے اور ہم اپنی ہی سرزمین پہ بیگانہ، بے زمین، لاچار، بے بس اور بس اپنی قومی تباہی کا نظارہ دیکھ رہے ہوتے۔

آج اگر ہم بطور قوم اپنی شناخت کو قائم اور اپنی گل زمین کی دفاع کرنے کی امید اور پوزیشن میں ہیں یا بلوچ قوم ایک بہتر معیارِ زندگی کے درجے میں شمار ہوتے ہیں، وہ بس اسی بلوچ قومی تحریک آزادی کی جنگ کی بدولت ہے۔ جب انسان کو اپنی آزادی حاصل کرنے کا کوئی دوسرا آپشن نہ ہو تو بس تشدد ہی وہ راستہ بچتا ہے جو اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو پانے کے لئے۔ بس اب اس جنگ کو ہر بلوچ کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے کیونکہ اج اگر ہم اس تشدد اور جنگ کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو ہم کب کہ بطور قوم اپاہچ، بیگانہ اور ملیامٹ ہوچکے ہوتے۔

اپنی انسانی بنیادی حقوق اور بہتر معیار زندگی کے لئے احتجاج کجا ہم اپنے ناموں کے سامنے بلوچ بھی لکھ کر مارہے جاتے اور قتل کرکے ویرانوں میں گمناموں کی موت مرتے رہتے۔ (آج بھی ہم شہید اور مر رہے ہیں لیکن ایک فخر اور ایک شناخت کے ساتھ جو جنگ کی مرہون منت ہے)۔ آج اگر ان چیزوں کی گنجائش باقی رہی ہے تو بس اسی جنگ کی شدت اور اسکے زور پکڑنے کے خوف سے۔ جسکی مثال آپ گوادر میں لوگوں کے احتجاج کی صورت میں دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس نوعیت کے انسانی حقوق اور اپنے انسانی حق کے لئے پرامن احتجاج کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میں مکمل طور پر یقین سے کہتا ہوں اگر یہ بلوچ جنگ نہ ہوتی تو آج کسی ایک بلوچ کو یہ حق بھی نہیں ہوتا وہ اپنے کو انسان سمجھنے کا سوچ بھی رکھتا۔ آج یہ بات پوری قوم کو یاد رکھنا ہے کہ اگر یہ قومی آزادی کی جنگ ہے تو ہم ہیں اگر جنگ نہیں یہاں کوئی بھی بلوچ نہیں۔ اس جنگ کے سوا بس تم بڑی بڑی شکاریوں کے شکار کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

شاری اگر معصوم لوگوں کی قاتل ہے تو وہ سامراجی قوت چائینا کیا ہے؟ قبضہ گیر پاکستان کیا ہے؟ یہ کونسی قانون، آئین اور انسانیت ہے کہ بزور طاقت، بم اور توپوں کے ساتھ آکر کسی آزاد قوم اور اسکی زمین پہ قبضہ کرنا اور اسے غلام بنا کر ہر ممکن کوشش کرنا کہ وہ بس غلام رہ کر ایک غلام کے بطور حاکم کی پیروی کریں، اسکی قومی وجود سے انکاری ہوکر اسے نیست و نابود کرنے کے لئے ہزاروں سازشیں کرنا، قومی وسائل پہ قبضہ کرکے بلوچ کو نان شبینہ کا محتاج کرنا اور اسکی ارتقائی، ذہنی، سماجی، اخلاقی شعور کو منجمد کرکے اسے جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پہ مجبور کرنا۔ اگر کوئی اپنے حق میں بات کرے اسے جیل میں ڈالنا، آزادی کی بات کرے اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنانا، آزادی کیلئے مزاحمت کرے اسے عبرتناک اذیت کا نشانہ بنا کر اسے قتل کرکے کسی ویران، صحرا یا جنگل میں اسکا لاش پھینک دینا۔ کونسی آئین، قانون اور انسانیت اس چیز کی اجازت دے گی؟

ہماری پوری بلوچ قوم کے قتل اور اسکے نیست و نابود کرنے میں چائنا، پاکستان کا برابر شریک دار۔ وہ ہمارے پوری قومی بقاہ، ہمارے لوگوں کا معاشی قاتل اور ہمارے اصل شعور اور علم کا مجرم۔ کونسی دستور چائنا کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ قبضہ گیر کے ساتھ شامل ہوکر، مظلوم قوم کے وسائل کی لوٹ مار اور اسکی نسل کشی میں پھر پور طریقے سے قبضہ گیر کے ساتھ شریک رہے؟ ہم بلوچ نہ انتہا پسند ہیں اور نہ ہی شدت پسند اور نہ ہی تشدد کے حامی، ہمیں ایک ایک انسانی زندگی سے پیار اور اسکی قدر ہے لیکن جہاں آئین، قانون اور انسانیت کا تصور ہی نا ہو، بس سامراجی مفادات کے لئے کسی کا گلا بزور طاقت دبا کر اسے قتل کیا جارہا ہو تو اس لاقانونیت کا جواب لاقانونیت ہی ہوگی، اس تشدد کا جواب تشدد ہی ہوگی، اور اس انتہا پسندی کا جواب انتہا ہی ہوگی۔ اس سے کم اگر ہو تو وہ ہماری بربادی اور تباہی ہی ہوگی ۔ اس ظلم و جبر اور لاقانونیت کی اجازت بس شاری نہیں بلکہ کوئی بھی بلوچ جہد کار نہیں دے گا۔ ہم بس اپنی مادر وطن کی آزادی ،اپنی قومی شناخت اپنی انسانی آزادی اور بہتر انسانی معیار زندگی گزارنے کے لئے جد و جہد کررہے ہیں جس کو بطور قوم حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس تشدد اور جنگ کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ دشمن بم، توپ اور تشدد کے ساتھ ہی ہم پر وارد ہوئی ہے اور ہم پر جنگ مسلط کرچکی ہے۔ ہم اب اپنی قومی آزادی اور بقاہ کی جنگ کو آخری دم تک لڑیں گے، اپنی آخری سانسوں تک، مکمل اپنی قومی آزادی تک اور شدت کے ساتھ بھرپور لڑیں گے اور اس راستے میں ہم ذرہ برابر بھی کسی خوف اور لالچ میں مبتلا نہیں ہوں گے اور ہر قربانی کے لئے مکمل طور پر فکری اور نظریاتی بنیادوں پہ تیار ہیں۔

بلوچ کا نوجوان ہر مصیبت اور مشکل سے مشکل چیلنجز کے لئے تیار ہے۔ بس ضرورت ہے کہ ہم اپنے صفوں میں اور زیادہ سے زیادہ مظبوطی لائیں۔ ایک دوسرے کے لئے بھروسہ اور یقین پیدا کریں اور سخت سے سخت زور دیں کہ اس جہد کو اور زیادہ اداراتی ساخت میں ڈھالیں اور مضبوط سے مضبوط اداروں کو تشکیل دیں۔ جہاں ہر بلوچ جہدکار کو اپنا جنگی، سیاسی اور علمی قابلیت کے اظہار کا موقع ملے اور ایک بھر پور جنگ کے لئے تیار رہیں اور ہر بلوچ کو اس جائز اور برحق جنگ کا ہر میدان، ہر فورم، ہر گلی، ہر گاوں، ہر شہر کا دفاع کرنا ہے۔ اس جنگ کا دفاع کرنا ہر بلوچ پہ فرض ہے اور اس جنگ میں شریک ہونا عبادتِ عظیم ہے۔ جب ایک قبضہ گیر کا جبر اور ظلم انتہا کو پہنچ جائے تو پھر وہاں ایک مظلوم پہ جنگ فرض بن جاتا ہے۔ ذرہ برابر بھی بزدلی، لاپرواہی اور کمزوری گناہ عظیم اور اس ظلم، ناانصافی اور جابر کے خلاف خاموشی اسے گناہ گار بنادیتا ہے۔

ایک باشعور انسان کے لئے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی خوف اور ڈر کی وجہ سے جابر کے سامنے اپنی آزادی، انصاف، برابری، خودداری، علمی اور شعوری زانت سے زیادہ غلامی کو ترجیح دے، اور اپنی ایک غلامانہ جسم اور ذہن کی خاطر ایک پوری نسل کے لئے غلامی کا انتخاب کرے؟ بغاوت، جوانمردی اور جرات سے جینے کے بدلے، مر مر کر جینے کو ترجیح دے؟ کیا بزدلی اور مر مر کر جینے سے ایک باہمت اور بامقصد موت بہتر نہیں؟ کیا ظلم، جبر، نابرابری، ناانصافی اور غلامی کے خلاف با مقصد موت کا انتخاب شعور اور آگاہی کی انتہا نہیں؟

آخر میں، میں بس یہی کہوں گا کہ ہمارا مقصد بس آزادی، اپنی پوری وجود کا ہر سطح پہ آزادی، اور اس آزادی کی راہ پہ ہمارا موت کا سامنا یا انتخاب بس ہماری مجبوری۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں