خطے میں بدلتی صورتحال اور قابض پاکستان کی پالیسیاں – میر مجاز بلوچ

424

خطے میں بدلتی صورتحال اور قابض پاکستان کی پالیسیاں

تحریر: میر مجاز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ گزری ہوئی داستانوں اور واقعات کا نام ہے، لیکن بڑی حد تک تاریخ کا دستر خواں مظلوم اور محکوم لوگوں کے خون کی خوشبو سے بھرا پڑا ہے۔ جبکہ تاریخ میں ہمیشہ ظالموں اور جابروں نے ظلم اور جبر کی داستانیں رقم کی ہیں۔ بقول مارکس یہ تاریخ صرف ظالموں اور حاکموں کی تاریخ ہے۔ دنیا کا ہر کونہ ایک ہی چیز کی خوشبو سے مہکتا ہے اور وہ ہے مظلوموں کا خون ناحق، جوکہ ملک و دولت شہرت و زر کی لالچ ، اور اپنے قبضے کیلئے ان جابروں نے مظلوموں کا خون پانی کی طرح بہایا جو آج تک جاری ہے۔

کافی عرصوں کے بعد امریکہ کا افغانستان سے انخلا اور بعد میں طالبان حکومت کے قیام سے پاکستان میں خوشی کی لہر آئی، مختلف جگہوں پر جشن منایا گیا۔ مزہبی لوگوں نے یہ امید ظاہر کی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت اسلامی شریعت کے مطابق قائم ہوگی جو اسلام کے خیرخواہ اور انکے دوست ہونگے۔

پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان تعلقات بہتری کیلئے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ نے بھی افغانستان کا دورہ کیا۔
لیکن نتیجہ پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب وابستہ امیدوں کے برعکس نکلا، افغانستان میں طالبان حکومت کے آتے ہی کچھ مہینے بعد TTP نے پاکستان کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا اور کارروائیاں شروع کردی۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب یہ کہا گیا کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردانہ کاروائیاں کرائی اور افغانستان میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا، انہوں نے یہ دلیل پیش کرتے ہوئے فتویٰ جاری کیا کہ کافر کا دوست بھی کافر ہوتا ہے۔

دوسری طرف سامراجی قوت چین دنیا میں سپر پاور بننے اور خطے میں اپنی اثر و رسوخ بڑھانے کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہے، اس نے پاکستان سے اپنے قدم پیچھے کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بعد 3 سال کے لئے 52 بلین کا تیل معاہدہ کیا۔
اور جیسے ہی TTP نے پاکستان میں حملوں کی شدت کو بڑھا دیا تو پاکستان TTP کے خلاف افغانستان میں آپریشن اور امریکہ کے دیئے ہوئے F-16 کے ذریعے ائیر اسٹرائیک کرنے کیلئے تیار ہے، لیکن ان حالات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کا اچانک سرگرم ہوکر پاکستان کے خلاف کاروائیاں پاکستان کی اپنی پالیسْیاں ہیں جو افغانستان میں موجود معصوم بلوچ پناہ گزینوں کے خلاف فوجی آپریشن اور بربریت کا راستہ ہموار کرنے ٹی ٹی پی کو سرگرم کیا گیا ہے تاکہ انکو دہشت گردانہ کاروائی کرنے کا جواز مل سکے۔

افغانستان میں چین کی اثر ورسوخ اور پاکستان کی کچھ حد تک مداخلت سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں سامراجی قوتیں ملک کر خطے کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان ڈیفالٹ ہونے والا ہے، اور ریاست کے بھی معاشی حالات دن بدن سنگین ہوتے جارہے ہیں، ان بدلتے حالات کے ساتھ دیگر سامراجی قوتوں کے ارادے بھی بدل رہے ہیں، وہ دیئے گئے قرضوں کے بدلے میں پاکستانی ریاست کے جوہری ہتھیاروں کو اپنے تحویل میں لینا چاہتے ہیں۔ ریاست پاکستان اپنے معاشی حالت کو بہتر کرنے لیے ہمیشہ بلوچستان کے سائل وسائل اور معدنیات پہ امید لگائے بیٹھی ہے، لیکن وہ بلوچ قوم کے مرضی کے بغیر ان پر قابض نہیں ہوسکتی، انکی واضح مسائل نام نہاد سی پیک پروجیکٹ ہے جو بلوچ آزادی پسندوں کی کامیابی حملوں کے بعد تاحال کامیاب نہ ہوسکا۔

پاکستان کی معیشت کو اندرونی جنگوں نے تباہ کر دی ہے، پاکستان کو سب سے زیادہ خطرات بلوچ آزادی پسند تنظیموں سے لاحق ہے، قابض پاکستان نفسْیاتی حوالے سے اپنی شکست کھو بیٹھا ہے، وہ بلوچ عسکری قوتوں کو کمزور کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے، وہ بلوچ سائل وسائل کی لوٹ مار کیلئے ریکوڈک کا سودہ کر چکا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کیلئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایرانی فوج سے رابطہ کیا ہے اور اسلام آباد میں ایرانی سفیر محمد علی خمینی سے بھی رابطہ کیا گیا ہے اسٹیبلشمنٹ کا ایران کے ساتھ براہ راست ان حالات میں تعلقات خوشگوار کرنا بلوچوں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے، حالیہ مہینوں میں فوجی آپریشن میں تیزی بلوچ نوجْوانوں کو لاپتہ کرنے میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، اندیشہ یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یا آصف غفور جنرل ٹکا خان والا کردار بلوچستان میں نہ نبھایا جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں