خضدار کتب میلے کی مناسبت سے ۔ ارواہ بلوچ

295

خضدار کتب میلے کی مناسبت سے

تحریر: ارواہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

خضدار میں منعقد ہونے والی کتب میلہ کو جبراً ملتوی کروانا جبکہ منتظمین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا نوآبادیاتی پالیسیوں کی تسلسل ہے۔

کتاب میلہ ایک پر امن اور مثبت سرگرمی ہے، جسے انتظامیہ کی طرف سے نہ صرف بزور طاقت روکا گیا بلکہ منتظمین کو سخت سے سخت نتائج کی دھمکی دی گئی، اس پر منتظمین چاہتے تو خاموشی اختیار کرتے لیکن اس کے خلاف بولنا اور اپنے جان جھونکے میں ڈالنا یا ایسے طاقتور سے ٹکر لینے کا مقصد صرف یہ تھا کہ دنیا کے سامنے اس ظلم و زیادتی کو بے نقاب کیا جائے اور اپنے معصوم عوام کو ان کے کالے کرتوتوں سے واقف کریں کہ یہ ہمیں کس حد تک اندھیرے میں رکھنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔

لہذا کتاب میلہ عوامی شعور و بیداری پھیلانے کا ایک اہم زریعہ ہے، جس سے کتاب کلچر فروغ پاتا ہے اور یوں ایک شعوری سفر کا آغاز ہوتا ہے جس سے عوام اپنے خلاف ہونے والے ہر ظلم، ناانصافی کو نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ اس کے خلاف بھر پور مذاحمت بھی کرتا ہے۔

اب اگر ہمیں کتب میلہ لگانے نہیں دیتے تو ہمارے کام کو مزید آسان کرتے ہیں، ہمیں ہمارے لوگوں کو بتانے اور سمجھانے کی کام میں مدد کرتے ہیں کہ ہم نوآبادی ہیں ہمارے پاس نہ کوئی جمہوری نہ سیاسی حقوق ہیں۔

ہم استعمار کی رحم و کرم پر ہیں ہمیں وہ جو دکھانا چاہے بس وہاں تک دیکھ سکتے ہیں لیکن ہمیں خود اپنے عقل ذہانت اور شعور کا استعمال کرنے کا بھی اختیار نہیں کیونکہ ہم غلام ہیں۔

جہاں تک میرا خیال ہے کہ کتاب میلہ منعقد ہونے سے اتنی جلدی ہم عوامی تحریک کا آغاز نہیں کر سکتے جو اس پر پابندی کی وجہ سے کرسکتے ہیں۔

اس جیسے ہر مسئلہ کو ایک سانحہ سمجھ کر اس کے اسباب، اثرات اور اس کے پس پردہ استعمار کی حکمت عملی کو براہ راست ایکسپوز کرنا اور اپنے عوام کو سیاسی بیداری سے لیس کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔

سانحہ صرف انسانی جسم کی قتل کا نہیں ہوتا بلکہ سیاسی قتل، شعوری قتل، صحت مندن سرگرمیوں کی قتل اور نوجوانوں کی جذبات کی قتل بھی سانحات میں شمار ہوتے ہیں۔

یہ مسئلہ صرف ایک ضلع اور ایک تنظیم کے درمیان چپقلش کا نہیں بلکہ یہ اس ذہنیت، نفسیات اور پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے جو پورے بلوچستان اور بلوچ قوم پر مسلط ہیں۔ یہ ذہنیت ہر جگہ یکساں ہے اگر کہیں اس طرح نہیں کرسکتے تو وہاں یا وہ خود کمزور ہیں یا انکے سامنے والا ان سے زیادہ مضبوط ہے مگر انکا رویہ یکساں ہے۔

ممکن ہے کچھ حلقے اس سانحہ کو صرف ایک تنظیم کا مسئلہ گردان کر اسی کا ہی ٹھیکہ سمجھ کر خود کو بری زمہ تصور کریں لیکن اس واقعہ کو ایک تنظیم تک نہیں بلکہ پورے قومی تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ اگر اسے سیاسی سمت اور شدت دیکر اس سے ایک باقاعدہ عوام تحریک جنم لے سکتی ہے کیونکہ اس میں پلس پوائنٹ یہ ہے کہ یہ ایک خالص ایجوکیشنل اور غیر متنازعہ event ہے جس پر ہر عام و خاص، سفید پوش شہری بول سکتے ہیں بلکہ ایک حد تک بول بھی رہے ہیں اور اسی طرح نکلنے کےلیے بھی تیار ہونگے۔ بشرطیکہ انکے غم و غصہ کا تشخیص کرکے انکی سیاسی تربیت کی جائے۔

کیونکہ اس سے قطع نظر بلوچستان میں ماورائے قانون قتل اور جبری گمشدگی جیسے کئی واقعات روزانہ کی بنیاد پر رونما ہورہے ہیں لیکن ان کے خلاف عوام مختلف وجوہات کی بنا پر براہ راست بات نہیں کرسکتا جس طرح اس پر کرسکتا ہے۔

یہ بات تو غیر ضروری ہے کہ کوئی تنظیم کی تفریق کی وجہ سے اس مسئلہ سے علیحدگی اختیار کرے۔ کیونکہ اگر یہ کتب میلہ سیو اسٹوڈنٹس فیوچر کی جانب منعقد کرنے کی اعلان کی گئی تھی تو کس لیے کیا گیا تھا، قوم کےلیے اور اسے روکنا بھی پورے قوم کی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے بلکہ قوم کو روشنی سے دور رکھنے کی کوشش ہے۔

تو ایس ایس ایف بھی قوم کی مشترکہ میراث ہے اسی طرح دیگر طلباء تنظیمیں اور قوم پرست جماعتیں بھی قوم کی میراث ہیں اور قوم کے ساتھ ہونے والے اس ظلم و جبر کے خلاف صدائے حق بلند کرنا چاہیے نہ کہ کسی ایک تنظیم سے اختلاف اور تعصب کی وجہ سے اسے نظر انداز کرنا چاہیے یا انکی ہمدردی کےلیے کرنا چاہیے بلکہ قومی ذمہ داری سمجھ کر اس کے خلاف مجموعی طور پر آواز بلند کرنا چاہیے۔

مختصراً یہ کہ قتل و جبری گمشدگی کے واقعات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ تب آواز بلند کرینگے اور مہم چلائینگے بلکہ اس سے پہلے سیاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے انکی روک تھام کےلیے اقدام اٹھانے چاہیے کیونکہ ایک مرتبہ پہلے عرض کرچکی ہوں کہ منتظمین کو ضلعی انتظامیہ بالخصوص ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ تو بعد کی خون بہانے سے اب کی پسینہ بہانا اچھا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں