خضدار بک فیئر پر ریاستی حملہ ۔ لطیف بلوچ

355

خضدار بک فیئر پر ریاستی حملہ 

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

خضدار میں ایس ایس ایف کی جانب سے سال نو کے موقع پر دو روزہ کتب میلہ 6 اور 7 جنوری 2023 کو منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور پھر اچانک سوشل میڈیا پر یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ ضلعی انتظامیہ نے کتب میلے کی انعقاد سے منتظمین کو روکنے کے لئے دھمکی آمیز حربے استعمال کررہی ہے اور کہا جارہا کہ امن و امان کا مسئلہ بک فیئر سے پیدا ہوسکتی ہے، اب یہ بات سمجھ سے بالاتر اور حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی کہ کتب بینی، بک فیئر اور کتابوں کی ایک اسٹال کیونکر انتظامیہ کی نظر میں سیکورٹی رسک ہے، کتب بینی تو شعور پیدا کرتی ہے، ذہنی و فکری اپاہیج معاشرے کو صحت مند و توانا بنانے کے لئے ضروری ہے لوگ کتب بینی کی شغف رکھیں، اپنی الماریوں کو کوٹ اور سوٹ سے سجانے کے بجائیں کتابوں سے سجائیں تو نسلیں علم و فکر سے لیس ہونگے، اگر آج بچوں کے ہاتھوں میں کتاب و قلم کے بجائے شراب کا بوتل ہوگا یا وہ کسی لائیبریری کے بجائے کسی ہوٹل اور پارک میں بیٹھیں گے تو کل جب وہ حقیقی زندگی میں قدم رکھیں گے تو اپنے آپ کو مکمل مفلوج محسوس کرینگے اور اپنے آپ کو غیر زمہ دار اور ذہنی طور پر اپاہیج تصور کرینگے، اگر اپنے بچوں کو معاشرے میں کارآمد انسان بنانا چاہتے ہیں تو انہیں کپڑے اور جوتے خرید کر دینے کے بجائے آُن کی تعلیم پر انویسٹمنٹ کریں اور آپ کی یہ انویسٹمنٹ کبھی ضائع نہیں ہوگی۔ اگر تعلیم کے بجائے جائیداد بنانے پر زور دینگے تو آپ کی دنیا سے گزر جانے کے بعد وہ جائیداد کی تقسیم پر لڑ پڑیں، ایک دوسرے سے قطع تعلق ہونگے اگر وہ علم حاصل کرینگے تو خود اپنے پاؤں پر جب کھڑے ہونگے تو وہ زندگی کی حقیقی رموز سے واقف ہونگے، اس کے علاؤہ جب وہ شعور یافتہ ہونگے تو ظلم و جبر، ناانصافیوں اور سماجی نابرابری کے خلاف آواز اٹھا سکیں گے، اس لئے کالونائزر ہمیشہ پہلا حملہ سماج کے باشعور و باعلم دماغوں پر کرتی ہے۔

خضدار میں بک فیئر کو روکنا سادہ مسئلہ نہیں بلکہ علم پر قدغن اور شعور پر حملہ ہے اور یہ کالونائزر کا وہ حربہ و نسخہ ہے جو وہ تمام مظلوم قوموں کے خلاف استعمال کرتی چلی آرہی ہے، روشن دماغوں سے زمانہ قدیم میں پادری اور مذہبی پیشوا خوف زدہ تھے اس کے بعد سامراجی طاقتوں نے مظلوم قوموں پر زیر کرنے ان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی ایسے دماغوں کو نشانہ بنائے جو سوچنا جانتے تھے اور سوچنا سکھاتے تھے.

سیو اسٹوڈنٹس فیوچر ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو خضدار میں تعلیمی ترویج کے لئے سرگرم عمل ہے، طلباء کو مختلف یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لئے معاونت فراہم کرنے، مطالعاتی مباحثوں، سیمینارز اور ورک شاپس کی انعقاد، طلباء و عوام میں کتاب دوستی کو اجاگر کرنے کے قابل تحسین اقدامات شامل ہے لیکن انتظامیہ ایس ایس ایف کی ان تعلیمی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کررہی ہے، اس سے قبل بھی خضدار یونیورسٹی اور ڈگری کالج میں تنظیم کے پروگرامز کو روکا گیا، حالیہ دنوں سال نو کے موقع پر خضدار کے طلباء و شہریوں کو کتب بینی کی جانب راغب کرنے کے دو روزہ کتب میلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ خضدار میں سماجی برائیوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے اور نوجوانوں کو کتاب دوستی کی جانب متوجہ کیا جاسکے لیکن ڈپٹی کمشنر خضدار نے کتب میلے کو سیکورٹی رسک قرار دیتے ہوئے ایس ایس ایف کو انعقاد سے روکا اور اس طرح اس کتب میلہ کو سبوتاژ کیا گیا جس سے طلباء شدید اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں۔

خضدار ایک طرف بدامنی، منشیات فروشی، چوری و چکاری، سماجی برائیوں کا شکار ہے، کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا جس میں ایک کمسن بچہ ایک شادی کی تقریب میں ہاتھ میں شراب کا بوتل لے کر رقص کررہا ہے، خضدار انتظامیہ نے خضدار کا یہ چہرہ متعارف کرایا ہے، کمسن بچے اور نوجوان سرعام شراب نوشی کرسکتے ہیں، ہاتھ میں شراب کا بوتل لے کر رقص کرسکتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، ایس ایس ایف کے بانی چیئرمین فضل یعقوب بلوچ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کی شعوری و فکری تربیت کررہی ہے اگر خدانخواستہ وہ کوئی شراب خانہ، جوا خانہ کھولتے یا نعیم بلوچ نوجوانوں کو مطالعاتی مباحثوں کی جانب راغب کرنے ان کی ذہنی استعداد بڑھانے کے بجائے ان کے ہاتھوں میں کلاشن کوف تھماتے اور چوری و چکاری کراتے تو انتظامیہ ان کی سامنے بھیگی بلی بن جاتی اور شہر میں وہ عزت مآب بن جاتے انہیں میر صاحب بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوتا لیکن اس کے برعکس وہ زہر کا پیالہ پی کر سقراط کے نقش قدم پر گامزن ہیں، سماج میں شعور و روشنی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اندھیروں کی طرف دار روشنی سے ازل سے خوفزدہ رہے ہیں اور آج پادری نہیں ہے لیکن کالونائزر موجود ہے، پادریوں کو خوف تھا کہ علم و دانائی سے ان کی فرسودہ مزہبی روایات کو دھچکہ لگے گا جبکہ کالونائزر اور ان کے مشینری کو چلانے والے ملازم اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر نوجوان شراب خانوں کے بجائے کتاب خانوں کا رخ کرینگے تو غلامی، ناانصافی کے زنگ آلود زنجیروں کو توڑیں گے، اس لئے قبضہ گیر اپنی مقامی مشینری یعنی مقامی انتظامیہ کے ذریعے خوف، ظلم و تشدد، ناخواندگی اور لاشعوری و جہالت کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے حربے استعمال میں لاتی ہے لیکن ایسی فرسودہ سوچ اور حربے اب اپنی معنویت کھوچکی ہیں، جس کا واضح اظہار کتب میلے کو سبوتاژ کرنے کے بعد نوجوانوں کی شعوری ردعمل کے ذریعے سامنے آچکی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ خوف کا فضا برقرار رکھ کر جہالت کو راج نہیں کرائی جاسکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں