حب میں پرائیویٹ تعلیم، معیاری تعلیم یا پیسے بٹورنا؟
تحریر: جی آر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
البتہ یہ ایک حقیقت ہیکہ قوموں کی ترقی کا انحصار علم و تعلیم پر ہے۔ اس لیے ہر معاشرے میں تعلیم کی ترقی کیلئے کوششیں ہوتی ہیں. جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اُنہوں نے سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو ٹھیک کیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایسا ستیاناس ہوا پچھلے کچھ دہائیوں سے کہ ہر کوئی اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہا ہے. بنیادی سہولتوں کا فقدان ، غیر ضروری نصاب، اقربا پروری، بدعنوانی، سفارش کا کلچر، شخصیت پرستی، علاقہ پرستی، فیورٹ ازم، رشوت خوری اور انتظامیہ کے طرف سے ہراسمنٹ، اساتذہ کرام کو اساتذہ کم مزدور زیادہ سمجھنا، تعلیم کم اور پیسے زیادہ بٹورنا، حب کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے ہمارے تعلیمی نظام کو مزید درہم برہم کر دیا ہے.جس طرح شہیدِ وطن صبا دشتیاری نے کہا تھا کہ “پاکستانی تعلیمی نظام انسان کو نامرد بنا دیتا ہے”۔ اسی طرح ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے بھی بچوں کو روبوٹ بنایا ہوا ہے جو( Essay, Application, Letter, Article, paragraph,) وغیرہ تک نہیں لکھ سکتے مگر پھر بھی اُنکا رزلٹ دیکھا جائے تب انسان حیران رہ جاتا ہے کیونکہ پیسے بٹورنے کیلئے بچوں سمیت والدین کو خوش رکھا جاسکے۔ بچہ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اچھے رزلٹ کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے اسی طرح والدین بھی اپنے بچوں کا رزلٹ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ اُس کے بچے کے مستقبل کو دانستہ اور بلواسطہ طور پر تباہ کیا جارہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق “صوبے میں اب بھی 12 لاکھ سے زائد بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں اور ان میں سے 5 سے 15 سال تک کے زیادہ تر بچے اپنے گھرانوں کی معاشی ضروریات کے لیےکچرہ چننے، مکینک شاپس، ہوٹلوں اور مُختلف فیکڑریوں سمیت دیگر مزدوری کےکام، کاج کرنے پر مجبور ہیں”۔
بلوچستان میں اب تک 12 ہزار سے زائد اسکول تعمیر کیے جاسکے ہیں جن میں زیادہ تر پرائمری اسکول ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بچوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح زیادہ ہے۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی 12,344,408 ہے۔ صوبے کی وزات برائے ثانوی تعلیم ہر سال رئیل ٹائم اسکول مانیٹرنگ سسٹم (آر ٹی ایس ایم) کے تحت بک لیٹ کی شکل میں اعداد شمار جاری کرتی ہے۔ جاری کردہ 19-2018 کی بک لیٹ کے مطابق صوبے میں کل سکولوں کی تعداد 14855 ہے، جس میں سے 73.4 فیصد یعنی 10971 سکولوں کی مانیٹرنگ کی گئی۔ ان اسکولوں میں سے 2998 اسکول بند پائے گئے۔ 73.4 فیصد اسکولوں میں سے بچوں کے 31.1 فیصد جبکہ بچیوں کے 33.4 فیصد اسکولوں میں بیٹھنے کے لیے میز، کُرسیاں یا پھر چٹائی جیسی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔
جس طرح میں نے اپنے پچھلے شائع ہونے والے تحریر میں رواں سال بلوچستان کے مُختلف علاقوں میں اسکولوں کو نذر آتش کرنے اور انکے وجوہات کو بیان کیا تھا، یعنی ایک طرف بلوچستان میں تعلیمی نظام تباہ ہے سرکاری اسکولوں کو اسکول کم پرانی حویلی زیادہ تصور کیا جاتا ہے اور جب بچے مجبور ہوکر یا پھر معیاری تعلیم حاصل کرنے کی جستجو میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں کے پڑھے لکھے باشعور لوگ پیسہ بٹورنے لگتے ہیں۔ حب میں انگلش لینگوئچ سینٹرز کا بڑھنا بھی بچوں کو علم دینا کم اور پیسے بٹورنا زیادہ ہے۔ پانچ سے چھ سال تک ایک ہی بچہ انگلش سیکھنے کے جستجو میں ہوتا ہے اور سینٹرز والے بافخر ہوکر چھ ماہ تک انگلش سکھانے کا دعوی کرتے ہوئے اپنے پوسٹر شائع کرکے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہیں۔ جو سراسر قوم کو بے وقوف بنا کر پیسے لوٹ کر آنے والے نسلوں کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ دانستہ یا غیر دانستہ، بلواسطہ یا بلاواسطہ مجھ سمیت حب شہر کے تمام باشعور نوجوان، اساتذہ کرام اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ البتہ میں بخوبی اس چیز سے بھی واقف ہوں کہ بلوچستان کے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر مختلف ٹھوکریں کھارہے ہوتے ہیں بے روزگاری کا عالم ہے مگر ان تمام تر مشکلات کا حل پرائیویٹ تعلیمی ادارہ بناکر لوگوں کو لوٹ کر اور آنے والے نسلوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا نہیں ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں ایک بچے سے ماہانہ پانچ ہزار سے زاہد روپے فیس لینا ایک غریب انسان کے ساتھ ڈکیتی جیسے واردات کرنے کے مترادف ہے بلوچ قوم پے ظلم، جبر اور نااصافی کے پہاڑ توڑے گئے خدارہ پڑھے لکھے اور باشعور بلوچ نوجوان اپنے خود کے قوم کے مستقبل کو اس طرح تباہ نہ کریں۔ خدا کا خوف کھائیں اور قوم کو بچائیں۔
البتہ اپنے آج کو بہتر بنانے کےلیے کل کے آنے والے نسلوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا پوری طرح تعلیم اور قوم دشمن پالیسی ہے جسے میں قوم کے مستقبل کو تباہ کرنے کے مترادف سمجھتا ہوں البتہ میرے نزدیک حب میں پرائیویٹ تعلیمی نظام کا بڑھنا معیاری تعلیم دینا کم کاروبار کرنا زیادہ ہے اور قوم کے مستقبل کو سنوارنا کم لوگوں کو بے وقوف بنا کر اُن کے ساتھ دوکھہ کرکے آنے والے نسلوں کے مستقبل کو زوال کرنا ہے۔ حب کے تمام باشعور اساتذہ کرام سمیت ہر طبقہ فکر سے درخواست ہیکہ تعلیمی نظام کو تعلیمی نظام ہی رہنے دیں اسے کاروبار مت بنائیں بطورِ بلوچ قوم ہمیں اس طرح کے مسائل کے خلاف ہر فارم پر آواز اُٹھا کر انہیں اُجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کرنی ہے کیونکہ یہ قوم کا مثلہ ہے، یہ آنے والے نسلوں کے مستقبل کا مثلہ ہے یہ ہمارے تعلیمی نظام کا مثلہ ہے۔ البتہ ہمیں یکجاہ ہوکر ہم آواز ہوکر تعلیم کو بچا کر قوم کے مستقبل کو بچانا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں