پشتون قوم پرست رہنماء ڈاکٹر سید عالم محسود نے نقیب اللہ کیس میں مرکزی ملزم راو انور کی بریت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ کے ریاستی قتل کے بعد شدید احتجاج کے دوران باجوہ وزیرستان جاکر نقیب کے والد سے ملا اور کہا کہ میں فوج کے سربراہ کی حیثیت سے یقین دلاتا ہوں کہ قاتل راؤ انوار کو گرفتار کرکے انصاف د لاونگا۔ کیا آرمی چیف پر بھی اعتبار نہیں کروگے؟ اور پھر نقیب کے والد کی طرف ہاتھ بڑھایا، سادہ شخص نے اعتبار کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ نقیب کے والد کو پتا نہیں تھا کہ بلوچ و بنگال کے ساتھ کیا کیا وعدے ہوئے تھے اور پھر ریاست نے ان کے ساتھ کیا کیا؟
انہوں نے کہا کہ 1958-59 میں نواب نوروز خان نے مسلح بغاوت شروع کی۔ پاکستانی فوج نے ان سے جنگ شروع کی لیکن بہت نقصانات اٹھائے ۔ پھر قرآن پاک لے کر نواب صاحب کو اپیل کی کہ انگریز چلا گیا اور ہم مسلمان ہیں۔ ہم اس پاک کتاب کی قسم کھاتے ہیں کہ اگر آپ ہتھیار پھینک دیں تو ہم آپ سے انصاف کرینگے ۔ نواب صاحب بھی اس جھانسے میں آئے اور ہتھیار ڈال کر پہاڑوں سے اترے ۔ فوج نے فوراً گرفتار کرکے حیدر آباد میں قید کیا۔ مقدمہ چلا، نواب نوروز کے سامنے انکے بیٹوں، بھتیجوں، خاندان کے پانچ افراد کو پھانسی دی گئی۔ نواب صاحب کو 75 سال عمر کی وجہ پھانسی نہ ملی اور اسی جیل میں انتقال کر گئے۔
انہوں نے کہا کہ نقیب کے والد محمد خان پر مراعات لینے کا الزام لگا۔ کینسر کے مریض محمد خان نے ہسپتال میں آخری بیان دیا کہ کوئی مراعات نہیں لیں بس انصاف چاہئے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ غلاموں کو کبھی انصاف نہیں ملا اور نہ مل سکتا ہے ۔
ڈاکٹر سید عالم نے کہا کہ راؤ انوار ، احسان اللہ احسان ریاست کے لوگ ہیں، وہ یوں ہی دھندناتے پھیر ینگے اور نواب نوروز بلوچ اور محمد خان محسود اور ان بچے کو پھانسی ملتی رہیگی یا ماورائے عدالت قتل ہوتے رہینگے۔