جنرل آصف غفور کا گوادر کے عوام کو دھمکی – ٹی بی پی اداریہ

638

جنرل آصف غفور کا گوادر کے عوام کو دھمکی
ٹی بی پی اداریہ

گوادر میں ماہیگیروں کے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے پاکستانی فوج اور پولیس نے طاقت کا کھلا استعمال کیا اور حق دو تحریک کے سربراہ واجہ حسین واڈیلہ سمیت تحریک کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ جس کے بعد ضلع گوادر کے علاقے جیونی، پشکان، اورماڑہ، سربندر اور پسنی کے حالات کئی دن تک کشیدہ رہے اور حق دو تحریک کے قائدین کو گرفتار کیا گیا جو بلوچستان کے مختلف جیلوں میں بند ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

گوادر میں کشیدگی کم کرنے کے لئے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سرکردگی میں پاکستانی فوج کے افسران اور حق دو تحریک کے کونسلران کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات میں پاکستانی آرمی کے کور کمانڈر کوئٹہ جنرل آصف غفور نے یہ دھمکی دے ڈالی کہ اگر گوادر میں آئندہ ہڑتال ہوئی اور دھرنا دیا گیا، تو آپ لوگوں کو جیل میں ڈال دوں گا۔ اس سے پہلے بھی جنرل آصف غفور نے پشتونوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے اور اُن کے کور کمانڈر کوئٹہ تعیناتی کے بعد بلوچستان میں نوجوانوں کی جبری گمشدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

کور کمانڈر کوئٹہ کے بیان کی بلوچستان اور پاکستان بھر کے سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی جانب سے سخت مذمت کی جارہی ہے۔ حق دو تحریک کے کونسلر کاکا سلیمان نے کہا کہ دوران مذاکرات تحریک کے قائدین نے جنرل آصف غفور کو واضح جواب دیا کہ دھمکیوں سے ہمیں ہمارے مطالبات سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا ہے اور ظلم و جبر سے ہماری تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ آصف غفور کی دھمکی ہماری ( بلوچستان ) نوآبادیاتی حیثیت ظاہر کرتا ہے۔

پرامن احتجاج کو طاقت کے زور پر ختم کرنا اور پر امن تحریک کے راستے محدود کرنا صرف آصف غفور نہیں بلکہ پوری ریاست اور ریاستی فوج کی مائنڈ سیٹ ہے۔ پاکستان فوج کی بلوچستان میں فوج کشی اور نواب اکبر خان کی شہادت کو صرف جنرل مشرف تک منسوب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بلوچستان میں قومی آزادی کی جدوجہد ختم کرنے کیلئے اب بھی طاقت کا استعمال ہورہا ہے۔

قومی آزادی کی جدوجہد سے منسلک سیاسی پارٹیوں اور اداروں پر پہلے سے پابندی ہے اور پرامن احتجاج کے راستے بند کیے جارہے ہیں جو آزادی کی جہد سے منسلک اداروں کے موقف کی تائید ہیکہ پاکستان میں پرامن جدوجہد کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور مسلح جدوجہد سے ہی بلوچ قومی حقوق ( آزادی ) حاصل کئے جاسکتے ہیں۔