جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ 4931 دن مکمل ہوگئے۔
اس موقع پر ایچ، آر، سی، پی کے سینئر کونسل ممبر سعید بلوچ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ڈپٹی آرگنائزر عبدالوہاب بلوچ ، ویمن آرگنائزیشن کے کامریڈ مہناز رحمان اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ عبدالحمید زہری کی بیوی اور بچوں نے حکام بلا سے والد کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عبدالحمید کو دس اپریل ۲۰۲۱ کو کراچی گھر سے سیکورٹی فورسز نے لاپتہ کیا جو تاحال لاپتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبدالحمید زہری سمیت تمام لاپتہ بلوچوں کو بازیاب کرکے ہمیں اس کرب اور اذیت سے نجات دلائیں تاکہ ہم اپنی معمول کی زندگی میں پھر سے لوٹ سکیں پھر سے جی سکی پھر اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ ہم یہ زندگی نہیں چاہتے جہاں روزانہ پریس کلب کے سامنے بیٹھے رہیں۔
عبدالحمید زہری کی بیوی نے کہا کہ شوہر کی جبری گمشدگی کو دو سال مکمل ہونے کو ہیں مگر ہمیں بحیثیت شہری یہ تک بتانے سے ریاستی ادارے انکاری ہیں کہ انہوں نے کونسا جرم کیا تھا جن کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے یا پولیس کے حوالے کرنے کے یوں لاپتہ کیا جائے؟ ہمیں یہ جاننے کا بھی حق نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں؟
اس موقع پر تنظیم کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہزاروں بلوچ نوجوان اس ناکام و غیر فطری ریاست کے تشدد کو برداشت کر رہے ہیں اگر ٹارچر سیلوں میں اذیت برداشت کرنے والے نوجوان مراعات قبول کرتے تو آج ان کے بہنوں، بھائیوں اور والدین کو کبھی کوئٹہ ، کراچی اور کبھی اسلام آباد کے پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر بھوک ہڑتالی کیمپوں میں احتجاج اور مظاہرے نہیں کرنے پڑتے، پچھلے 75 برسوں میں اس ملک کے حکمران جو خود کو جمہوری کہتے چلے آ رہے ہیں بلوچستان میں بلوچ نسل کشی ، اغواء نما گرفتاری سمیت تمام غیر جمہوری، غیر فطری ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز کے ذریعے بلوچ عوام پر بمباری کرنا اور خوف و ہراساں کرنا ان کا شیوہ ہے لیکن بلوچ قوم پر امن جدوجہد اور بلوچ عوام کی حمایت نے بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کا کردار واضح کر دیا ہے دوسری طرف بلوچ عوام پر ظلم کرنے اور دوسری طرف عالمی دنیا پر بلوچستان میں بلوچ نسل کشی اور دہشتگردی کو عیاں کر دیا ہے۔