جامعہ بلوچستان: مطالبات کے حق میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا احتجاج

270

مالی بے ضابطگیوں نے جامعہ بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے – جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان

بلوچستان یونیورسٹی کے موجودہ مالی بحران پرجوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان کے پلیٹ فارم سے جامعہ کے اساتذہ، آفیسران اور ملازمین کو گزشتہ تین مہینوں کی تنخواہوں اور ڈی ارے، اردلی و ہاوس ریکوزیشن الاؤنس کے بقایاجات کی تاحال عدم ادائیگی، جامعہ کو درپیش سخت مالی و انتظامی بحران کے خاتمے اور یونیورسٹیز ایکٹ 2022 کی پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ، آفیسران، ملازمین کی منتخب نمائندگی یقینی بنانے، آفیسرز اور ملازمین کے پروموشن اور آپ گریڈیشن کیلئے جاری احتجاجی تحریک کے سلسلے میں آج بروز جمعہ جامعہ بلوچستان میں آرٹس بلاک سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جوکہ جامعہ کے مختلف شعبہ جات سے گذر کر وائس چانسلر سیکرٹریٹ کے سامنے پہنچ کر دھرنا دیا گیا۔

مقررین نے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ تین مہینے گزرنے کے باوجود تاحال جامعہ بلوچستان کے اساتذہ کرام،آفیسرز اور ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں اور نان شبینہ کے محتاج بن گئے ہیں جبکہ غیر قانونی طور پر مسلط وائس چانسلر خود دس لاکھ روپے سے زائد تنخواہ اور دوسرے مراعات لینے میں مشغول ہے جبکہ صوبے کا قدیم مادر علمی اس وقت بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے-

مقررین نے کہا کہ صوبائی وزیر اعلی کی طرف سے اجرا کردہ 30 کروڑ روپے سے ابھی تک جامعہ کے اساتذہ اور ملازمین مستفید نہیں ھوئے ہیں صوبے کی مادر علمی کو بچانے کیلئے صوبائی خاص کر مرکزی حکومت کو خطیر رقم کا اعلان کرنا چاہیے بصورت دیگر جامعہ بلوچستان عملی طور پر بند ہوجائے گا-

انہوں نے کہا کہ سازش کے تحت جامعات کی ایکٹ 2022 میں تعلیم و صوبہ دشمنی کرکے پالسی ساز اداروں خصوصا سنڈیکیٹ، سینیٹ، اکیڈمک کونسل اور فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی سے اساتذہ کرام،آفیسران، ملازمین اور طلبا وطالبات کی منتخب نمائندگی یکسر ختم کی جس سے جامعات میں آمرانہ طرز اختیار کیا گیا اور جمہوری کلچر کو فروغ دینے سے روکا گیا اور جامعہ کے تمام اہم پوزیشنز جس میں رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات، چیف لائبریرین، ڈی جی پلاننگ اینڈ ڈیولپمنت پر مستقل تعیناتی قصدا نہیں کرائی جارہی اور درجنوں ریٹائرڈ افراد کو کنٹریکٹ پر تعیناتی کے علاوہ اپنے بندوں کو نوازنے کے لئے شعبہ فارمیسی سمیت دیگر شعبہ جات میں نئے بھرتیاں کرکے انھیں نوازا جارہا ہے جوکہ قابل مذمت فعل ہے اور جامعہ کو مزید بحران کی طرف دھکیلنے کا سازش ہے۔

مقررین نے تمام سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ طلبا وطالبات کے مستقبل کو بچانے کیلئے جامعہ بلوچستان کی مالی و انتظامی بحران کے مستقل حل کے لئے اپنی ذمہ داری نبائے اور غیر قانونی طور پر مسلط وائس چانسلر کو ہٹاتے کے لئے زور ڈالے تاکہ جامعہ بلوچستان مالی اور انتظامی بحران سے نکل سکے۔

انھوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان میں تین ریسرچ سینٹرز بھی سخت مالی، انتظامی و تعلیمی بحران کے شکار ہیں انکے اساتذہ کرام اور ملازمین بھی ماہانہ تنخواہوں اور منظور شدہ الاونسز سے محروم ہیں۔