تعلیماتِ مہر گوش ۔ ڈاکٹر ہیبتان بشیر

821

تعلیماتِ مہر گوش

تحریر: ڈاکٹر ہیبتان بشیر

دی بلوچستان پوسٹ 

اگر ہم کسی بھی انسانی زندگی، قوموں کی تاریخ، ایک بہتر زندگی کے لئے جد و جہد، کسی بھی کاز اور مقصد کو حاصل کرنے کی خواہش، انقلاب، سیاسی جد و جہد ،آزادی، آزادی کے لئے سیاسی اور عسکری جنگ،کسی بھی عظیم حدف اور منزل کو پانے کی حقیقت کو اگر ہم پڑھیں یا اسے پرکھنے کی کوشش کریں تو اسے پانے کی راہ میں ہم کسی لمحے اسے کسی اونچائی میں دیکھتے اور دوسرے لمحے ہم اسے کسی پستی میں دیکھتے ہیں۔مطلب عروج اور زوال دونوں پہلووں کو دیکھ سکتے ہیں۔ نیستی سے ظہور پزیر ہونا اور جانبِ اونچائی سفر کرنا، افق کو چھو کر پھر پستی کی طرف لوٹنا اور بکھرنا اور مسخ ہونا ، اسکے بکھرنے اور مسخ ہوئے فکر و مقصد کو پھر سے سکڑنے اور ہمت باندھ کر ابھرنے میں بہت قوت، ہمت اور حوصلوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بعض تو ایسے بکھر جاتے ہیں کہ وہ دوبارہ سر اٹھانے کا سوچ ہی کھو دیتے ہیں، بعض سکڑ کر اور ہمت باندھ کر پھر بھی ہار جاتے ہیں، تاریخ کے صحفوں میں ایسے بہت کم ہی مثالیں ملیں گیں، جو بکھر کر اور مسخ ہوکر دوبارہ سکڑ اور ہمت پا کر پہلے سے بھی زیادہ قوت اور ہمت کے ساتھ ابھرے ہیں۔

اگر ہم موجودہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک سیاسی یا عسکری دونوں کا مطالعہ کریں تو ہم اسے ان نقطوں میں پا سکتے ہیں۔ 2000 سے پہلے ہم کہیں بھی ایسی کوئی تحریک یا آواز بظاہر نہیں دیکھ اور سن رہے تھے جو واضح ہو کہ یہ خالص بلوچ جہدِ آزادی کی تحریک ہے۔ 2000 کے بعد ہم ایک واضح سیاسی آواز اور مزاحمتی جد و جہد اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چھڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں، یہی امید ، یہی آواز ، یہی انقلاب زندہ باد، آزادی کا ایک ہی ڈھنگ گوریلا جنگ گوریلا جنگ،جو پارلیمنٹ کا یار ہے غدار ہے غدار ہے۔وطن یا کفن۔ 

یہیں سے بلوچ قوم ایک دفعہ پھر اپنی آزادی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں وہ خواب جو 27 مارچ 1948 کے بعد کبھی سر اٹھاتے تھے تو کھبی خواب بس خواب ہی رہ کر کسی مایوس نگر میں تحلیل ہوجاتے تھے۔

ہر آنکھ روشن ،ہر وجود حوصلوں سے پر ،ہر دل و ذہن جذبوں سے پُر پھر سے آزادی کے گیت گانے لگ جاتے ہیں، بہت جلد ہی یہی امید انہیں کیچڑ سے نکل کر ایک حسین سبزہ زار کے نظارے کا منتظر بناتے ہیں۔ اور اسے پانے کئے لئے سیاسی اور مسلح میدان میں کود پڑتے ہیں۔

۲۰۰۰ سے ۲۰۰۹ تک اس دورانیہ میں بہت سے سیاسی اور مسلع جہد کار شہید اور بہت سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں مِسنگ ہوجاتے ہیں۔

۲۰۰۹ سے ریاست کی طرف سے مِسنگ بلوچ جہد کاروں کو ٹارچر اور مسخ کرکے انکی لاشوں کو ویرانوں اور جنگللوں میں پھینکنے کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔لیکن اس سے قوم نہ ڈرتی ہے اور نہ کمزور ہوجاتی ہے بلکہ حوصلوں کے ساتھ اسکے مقابلے کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔

لیکن ۲۰۱۳ کے آغاز سے ہی بلوچ سیاسی اور مسلح 

تنظموں کے اندر اپنے اندرونی طور پر شائد تنظیمی اداروں کی نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسی چپقلش اور تضادات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں کہ جسے سوچ کر کسی بھی بلوچ جہد کار کا دل اور روح لرز اٹھتے ہیں ۔ جہاں قوم کے اندر نا امیدی ،انتشار ،ٹوٹ پھوٹ ،بے بسی، لاچاری اور پھر سے بکھر جانے کے بیج بو دیئے جاتے ہیں، جس سے قوم بہت ڈر جاتی ہے اور اسکے ہمت اور حوصلے کمزور ہوجاتے ہیں، اور خود اپنے ساتھ اسے لڑنے کے لئے حوصلے ساتھ نہیں دیتے۔

۲۰۱۳ سے ۲۰۱۸ کے وسط تک اگر ہم اس موجودہ بلوچ جہدِ آزادی کے تحریک کی سیاہ تاریخ کہیں تو ہم غلط نہیں ہوں گے۔ جس سے کوئی بھی تنظیمی راہنماہ بری الزمہ نہیں کیونکہ اس دور کے اثرات ابھی تک کسی حد تک ابھی بھی موجود ہیں۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ۲۰۱۶ سے ۴۰۱۸ کا دورانیہ ایک ایسا دورانیہ ہے جو تضادات ۲۰۱۳ کے شروع میں کھل کر سامنے آگئے تھے ان کے اثرات اور حاصل سے جہاں مخلص سے مخلص سیاسی اور عسکری جہد کار ، لیڈر اور پوری قوم مایوسی اور نا امیدی کی ایک ایسی دلدل میں گھری ہوئی تھی جس سے باہر نکلنے اور اسے سمجھنے کے لئے کافی ذہانت، علم ،شعور، ہمت اور حوصلوں کی ضرورت تھی۔ کیونکہ قوم اور جہد کاروں میں حوصلوں کی فقدان ، بہت سے سیاسی اور عسکری دوستوں کی خاموشی، بہت سے جہد کاروں کا جہد سے سرنڈر،تنظیموں کے اپنے اندر تضادات، بحران در بحران، تضاد در تضاد اور دوسری طرف دشمن ان سب کمزوریوں ، اور غلطیوں سے فائدہ اٹھا کر نئے سے نئے حربے بنا اور انہیں اپلائی کررہا تھا۔ انکا حل کسی بھی سرے سے نظر نہیں آرہا تھا۔

جنگ کا تو اصل میدان سوشل میڈیا تھا ، جہاں ہر کوئی جانے یا انجانے میں جو بھی تھا بولتے جارہا تھا۔ جہاں کہیں بھی علمی ،نتیجہ خیز یا دلائل اور منطق کے ساتھ بحث نہیں ہوتی تھی،سوشل میڈیا پر جو بے حاصل اور بے نتیجہ بحث ۲۰۱۳ سے ہی شروع ہوئی تھی، جہاں سب خود کو بلوچ تحریک آزادی کا جہد کار اور ہمدرد ظاہر کرتے تھے ، جس سے دشمن نے بھی فائدہ اٹھا کر صفوں میں گھس گیا تھا ،کچھ شعوری طور پر ،کچھ اپنی ناسمجھی ،اور کچھ حقائق سے نابلد اور اسکے انجام اور حاصل سے بے خبر ہوکر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پتہ نہیں کیا سے کیا لکھتے اور بولتے جارہے تھے۔اب کھل کر سارے تضادات قوم کے سامنے واضح ہوچکے تھے۔اور ہر سمت سے مایوسی اور نا امیدی کی راہیں اپنے نقش بنا رہے تھے۔

انہیں انتشار ،ٹوٹ پھوٹ ،بحران، تضاد، ناامیدی، بے ہمتی اور بے حوصلوں کے بیچ ایک آواز مہر گوش بھی منظر عام پہ آجاتے ہیں جسکی آواز ہم جیسے بے علم ،جاہل ،بےہمت، بے حوصلہ ، مایوس اور نا امیدوں کے لئے اندھیرے میں روشنی کی کرن سے کم نہیں تھی۔ جو بے نتیجہ، لاحاصل ، دلائل اور منطق سے کوسوں دور سوشل میڈیا پہ بحث تھی انکے خلاف ایک توانا آواز تھی، جو ایک سچے مخلص بلوچ جہد کار کے لئے ہمت اور حوصلوں سے پر ایک واضح راہنمائی تھی، جو اپنے مزاج، رویوں، کمزوریوں، کوتاہیوں اور کردار کو دیکھ کر اپنی بے علمی اور جہالت کو دیکھنے کے لئے ایک شفاف آئینہ تھی جس سے ہم اپنا داغدار چہرہ واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ بہت سے ناخوشگوار اور بے ترتیب و بے ربط آوازوں میں سے ایک خوشگوار اور بے ربط دھڑ کنوں اور سانسوں کے لئے ایک ربط اور ترتیب آواز۔ پتہ نہیں اتنی شور میں کسی کی کانوں پہ یہ آواز پہنچی ہو کہ نا ہو ، لیکن تاریخ کے کانوں میں آج بھی مہر گوش کی آواز گونج رہی ہے اور یہی آواز اب کتاب کی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ جو میں کہتا ہوں ہر سیاسی اور عسکری بلوچ جہد کار کو پڑھنا چاہئے ، جہاں ہم اپنی ذات،اپنی سوچوں کی سمت،فریب کیفیت،خود بنائے گئے غلط سوچ و رویے اور انکی حقیقت کو سمجھنے میں فریب سے نکل کر سچائی کے ساتھ اپنا سامنا کرسکتے ہیں۔ مایوسی ، نا امیدی اور بے ہمتی جیسے بیماروں کی وجہ کو پار کرکے انہیں یقین ،امید اور ہمت و حوصلوں سے شعور اور فکر سے لیس کرکے مسلسل عمل سے صحیح سمت میں سفر کا تعین کرسکتے ہیں۔انقلاب اور آزادی کی جو قیمت ہمیں دینی پڑتی ہے اسکے لئے ہمیں شعوری طور پر مکمل آگاہ کرتے ہیں۔

جس مہر گوش کو ہم ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۷ کو پڑھتے تھے وہ ہمارے لئے ایک بہترین لکھاری، دوراندیش دانشور،فلسفی،کوئی ماہر نفسیات جسکے الفاظ ہمارے روح کو تازگی بخشتے تھے۔ جسکو پڑھ کر ہم اپنے کمزور رویوں ،سوچ اور کردار کو پرکھ سکتے تھے کہ ایک معمولی انسان اور ایک بلوچ سیاسی اور جنگی جہد کار اور انقلابی کی سوچ ، رویے ،سوچ کی سطح اور کرداروں میں کیا فرق ہونی چاہیئں ،سچ اور جھوٹ،راستی اور فریب میں کیسے تمیز کریں، یقین ،امید،حوصلے اور بلند ہمتوں کے ساتھ کیسے سخت اور کھٹن حالتوں کا مقابلہ کریں۔ایک عظیم منزل کو پانے کے لئے کن قربانیوں اور تکلیفوں سے گزر کر اسے حاصل کریں۔ اور جس مہر گوش سے جس سے میں۲۰۲۲ سے واقف ہوا ہوں،مطلب جس وقت مہر گوش لکھتے تھے مجھے خبر نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔۲۰۲۲ میں مجھے اسکی خبر ہوئی ہے کہ وہ بہترین لکھاری، دور اندیش دانشور،فلسفی اور ماہر نفسیات جو اب کمانڈر ان چیف، ایک ماہر سیاسی اور جنگی لیڈر ،ایک مہربان سنگت ،سنگت بشیر زیب ہیں ، جسکا بلوچ قومی آزادی پہ مکمل اور کامل یقین اور اسے حاصل کرنے کے لئے آسمانوں سے بھی اونچی ہمت اور حوصلے۔ خالص بلوچ نیشنلزم اسکی سیاست اور جنگی جد و جہد کا محور۔ مظبوط تنظیم ،منظم اور فعال تنظیمی اداروں پہ ہر وقت اسکی محنت۔

مہر گوش کے الفاظ کی سچائی کا سامنا شاید ہی کوئی ایسا پختہ انقلابی جسکے روح اور ذہن ایک سچے انقلاب کے لئے تیار ہو ،وہی کرسکتا ہے ،کیونکہ اس نے ہمیں ہمارا چہرہ آئینہ پہ اس طرح دیکھایا کہ ہم اس کے معیار کے انقلابی کے سطح سے بہت نیچے تھے۔ مہر گوش کے کئے ایک انقلابی کا تصور اس شخص کا سمندری سفر جیسا ہے ، جہاں ساحل کی تمنا بس آزادی کا خواب پورا ہوکر ہی ممکن ہوسکے گا، وگرنہ ہمت اور حوصلوں سے اور اس طوفان کی طرف بڑھنا جہاں شائد واپسی ناممکن ،اور کوئی اس ناممکن کو ممکن اس وقت بنا سکتا ہے جس دن آزادی کا سورج طلوع ہو، غلامی کے ہر طلوع ہوتے ہوئے سورج سے اور مزید طوفانوں کی طرف جانا اور گہرائیوں میں اترنا اور تیز موجوں سے اور سخت سے سخت اور مضبوط سے مضبوط تر اعصابوں سے لڑنا‎نا ہوگا۔

جیسا کہ وہ کہتے ہیں “ جنگ یا جدوجہد کی فطرت شروع سے لیکر آخر تک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے،اس لئے یہ ہر انسان کی بس میں نہیں ہوتا،اگر کوئی جنگ یا جہد کو مسلسل تکلیف در تکلیف والا عمل سمجھ کر اس کو اختیار کرتا ہے ،تو اس پر ایسے حالات بہت کم اثر انداز ہوتے ہیں۔سب سے حیرت انگیز اور بے شعور سوچ وہ ہے جو جہد اور جنگ کو مکمل انسانی مزاج اور طبیعت کے مطابق سمجھ کر روز مرہ کی زندگی تصور کرے کیونکہ جنگ بذات خود انسانی مزاج کے بر خلاف ایک عمل ہے لیکن انسانی نجات کا واحد ذریعہ بھی ہے، جو اکثر و بیشتر مجبور انسان کو اختیار کرنا پڑتا ہے اور اس کے رد عمل میں ہر وقت ، ہر دن انسانی مزاج کے بر خلاف ایسے واقعات و حالات رونما ہوتے ہیں جن کو برداشت کرنا، صبر و استقامت کے ساتھ ان کو سہنا قربانی کا نام ہے۔کوئی بھی سخت و تکلیف دہ واقعہ اور رویہ چاہے جس شکل و صورت میں سامنے آئے اس کے بعد بھی اپنی سوچ پہ قائم رہنا کہ مجھے کرنا ہے، مجھے جانا ہے ، ہر حالت میں، ہر صورت میں ، تو یہی سوچ انسان کو آخر کار کامیابی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچا دے گا،اور ایسی سوچ کو مستقل مزاج اور شعوری سوچ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔”

ہر بلوچ سیاسی اور عسکری جہدکار کو مہر گوش کو پڑھنا، اسے سمجھنا ، پرکھنا اور پھر اس پہ عمل کرنا ایک روح کو تازگی بخشنے والی سفر ہوگی جو میں ہر بکوچ جہد گار کو کہتا ہوں اس سفر پہ لازمی نکلیں جس سے ہمارے بہت سے بند دریچے کھل کر ایک نئی دنیا ہم اپنی ذات میں دریافت کرلیں گے۔ جو ہمیں منزل تک پہنچنے میں شعوری فکر عطا کرکے درست سمتوں میں مسلسل عمل کرنے میں راہنمائی کرتا رہے گا۔

وہ لکھتے ہیں، “جذبات و تصوارات یا خوشگوار ماحول سے متاثر ہوکر یا پھر جبر کی زد میں آنے کے بعد بعض لوگ تحریک آزادی کا حصہ تو بن جاتے ہیں لیکن جب تحریک کی کوکھ سے جنم لینے والے مصائب ،تکالیف و آزمائش اور دشمن کی ظلم و بربریت کھل کر سامنے آتا ہے تو ذہن غلط و صیح کی تسبیح پڑھنا شروع کر دیتا ہے کہ میں جس راستے پہ گامزن ہوں ، آیا وہ کس حد تک صحیح یا غلط ہے؟ یہیں سے انسان کی سوچ ،علم ،شعور، صلاحیت اور عمل تذبذب کا شکار ہوگئے تو قدموں میں تھکاوٹ اور ذہن پر خوف حاوی ہوجاتا ہے ۔ اصل سچائی اور حقیقت یہی ہے لیکن انسان اس حقیقت سے انکاری ہوکر بے بنیاد اور من گھڑت بہانوں اور جواز کی بیساکھی کا سہارا لیکر اپنی کمزوری و کوتاہیوں کو دوسروں کے سر انتہائی آسانی کے ساتھ ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر مسلسل دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی خاطر اور خود کو صیح ثابت کرنے کے لئے حقائق کو پاؤں تلے روند کر جھوت پہ جھوٹ والا منفی حربہ استعمال کرتا ہے اور ان لوگوں سے اپنا تعلق استوار کرکے مہر و محبت کا اظہار کرتا رہتا ہے جو راہ فرار کی گندی ندی میں نہاتے ہیں۔ ایسے لوگ ایک دوسرے کے کئے ہمدردیاں جتاتے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی بھرپور حوصلہ افزائی اور صفت و ثناء بھی کرتے ہیں تاکہ اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیں کہ ہم کل بھی اچھے تھے اور آج بھی اچھے ہیں اور آنے والے کل کو بھی اچھے ہوں گے۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں