بلوچستان میں پارلیمنٹیرینوں کا نئی پارٹیوں میں اڑان – اداریہ

318

بلوچستان میں پارلیمنٹیرینوں کا نئی پارٹیوں میں اڑان
ٹی بی پی اداریہ

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں آخری بار شفاف الیکش ستر کی دہائی میں ہوئے تھے اور سترکے الیکشن کے بعد جتنی بھی حکومتیں منتخب ہوئی ہیں، وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی پالیسیوں کے مطابق منتخب ہوئے اور فوج کی پالیسیوں کو بلوچستان میں عملی جامہ پہناتے رہے ہیں۔

وہ پارٹیاں جو پاکستانی فوج کے تابع نہ تھے، اُن کی حکومت ختم کی گئی یا اُنہیں حکومت بنانے نہیں دی گئی۔ انیس سو تہتر میں نیشنل عوامی پارٹی کی اکثریتی حکومت ختم کرکے بلوچستان میں فوج کشی کی گئی اور جام غلام قادر کی صدارت میں اقلیت نے حکومت کی تھی، انیس سو نوے میں نواب اکبر خان بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی کو اکثریت ہونے کے باجود حکومت بنانے نہیں دیا گیا اور انیس سو اٹھانوے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی حکومت دو سال بعد سازشوں کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔

بلوچستان میں ہر الیکشن سے پہلے پولیٹیکل انجینئرنگ شروع کی جاتی ہے اور سیاسی شخصیات ، سردار ؤ نواب، منشیات فروش اور ڈیتھ اسکوڈ چلانے والوں کی وفاداریاں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ دو ہزار دو میں جو لوگ مسلم لیگ ق میں تھے، وہ لوگ دو ہزار آٹھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دو ہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن سے وابستہ ہوگئے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ میں اِن سب کو بریگیڈیئر خالد نے راتوں رات یکجاہ کرکے بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ ) بنا دیا اور الیکشن کے بعد حکومت تھما دی۔ بلوچستان میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے آپسی لڑائی میں وزیر اعٰلی کا چہرہ جام کمال اور قدوس بزنجو کی صورت بدلتا رہا ہے۔

اب انہی سارے پارلیمانی سیاستدانوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علماء اسلام میں اڑان بھر لی ہے، جو ایک اشارہ ہیکہ بلوچستان میں اگلی حکومت پیپلز پارٹی اور جمعیت کی ہوگی یا دو ہزار آٹھ کی حکومت کی طرح ہوگی، جس میں بلوچستان اسمبلی کے چونسٹھ میں سے یار محمد رند کے علاوہ جِن کے اُس وقت کے وزیر اعٰلی اسلم رئیسانی کے ساتھ خاندانی دشمنی تھی، باقی تریسٹھ اراکین بلوچستان اسمبلی کے پاس وزارتیں تھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی جو اٹھاریوں ترمیم اور صوبائی خودمختاری کی وکالت کرتا ہے اور پارٹی کو سندھ کے حقوق کی پاسبان گردانتا ہے، یہی پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ اور منشیات فروشوں کو پارٹی میں شامل کرکے اگلی حکومت بنانے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست دیوالیہ پن کا شکار ہے اور اراکان اسمبلی کو پاکستان فوج کے میجر اور کرنل رینک کے آفیسر منتخب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان میں حکومتیں عوام کے بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تابع ہیں اور اُن کی پالیسیوں کی تکمیل کررہے ہیں۔