بلوچستان لبریشن فرنٹ کی سالانہ کاروائیوں پر ایک نظر
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان لبریشن فرنٹ کا مختصر تعارف
بلوچستان کی متحرک مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کا قیام اکیسویں صدی میں شعور یافتہ بلوچ فرزندوں نے تنظیم اور اداروں کی کمی کے باعث تشکیل دی جس کا اولین مقصد آزاد بلوچ ریاست کا حصول ہے. بلوچستان لبریشن فرنٹ ایک سیاسی پروگرام رکھتی ہے اور اس سیاسی پروگرام کو تنظیم کی لیڈرشپ نے ایک منشور کی صورت میں واضح کیا ہے.
بلوچستان لبریشن فرنٹ شعور یافتہ رہنماوں اور ممبران کی جدوجہد ،قابلیت اور مخلصی کی وجہ سے بلوچستان کی صف اول مسلح تنظیموں میں شمار ہوتا ہے جس نے کم وقت میں ریاست پاکستان کی افواج اور تنصیبات پر متواتر حملہ کرکے بلوچ عوام کو متاثر کیا ہے اور تنظیم کی جدوجہد آزاد بلوچستان کے حصول تک جاری رہیگی.
سال 2022 بی ایل ایف کی کاروائیاں.
سال دو ہزار بائیس میں بی ایل ایف نے کل 187 حملے کئے.یہ حملے ریگولر فوج ،ایف سی ،رینجرز ،لیویز،پولیس ،اے این ایف ،ریاستی مشینری ،موبائل ٹاورز اور ڈیٹھ اسکواڈ کارندوں پر کئے گئے .ان حملوں میں دو سو بارہ سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے،ڈیتھ اسکواڈ کے تیس سے زائد اہلکار ہلاک جبکہ بیس سے زائد زخمی ہوئے.
ان حملوں میں فوج کی گیارہ گاڑیاں تباہ جبکہ موٹر سائیکلوں سمیت پندرہ گاڑیوں کو نقصان پہنچا ،ایف ڈبلیو او کے مشینری کو دس مرتبہ نقصان پہنچایا گیا جبکہ موبائل ٹاور اور مشینری کو گیارہ دفعہ نقصان سے دوچار کیا گیا.
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے حملوں میں گوادر پورٹ سے سامان لیجانے والی گاڑیوں پر دو مرتبہ حملہ کرکے نقصان پہنچایا گیا جبکہ خضدار سے قیمتی پتھر لیجانے والی گاڑی کو بھی نقصان سے دو چار کیا گیا.
جنوری دو ہزار بائیس سے لیکر دسمبر 2022 تک تنظیم کے دس ساتھی شہادت کے اعلی رتبے پر فائز ہوئے.
حملوں کی نوعیت
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے 187 حملوں میں بارودی سرنگ کے پندرہ حملے ،دستی بم کے اٹھائیس حملے ،آئی ای ڈی کے نو حملے جبکہ اسنائپر سے سترہ کامیاب حملے کئے گے.
ڈیتھ اسکواڈ کو سزائے موت کے واقعات کے علاوہ گھات لگا کر تین مرتبہ دشمن کو نقصان سے دوچار کیا گیا جبکہ جھڑپ کے نو واقعات ریکارڈ کئے گئے.
بھاری ہتھیاروں ،راکٹ ،اے ون اور جدید ہتھیاروں سے حملوں کے سینکڑوں واقعات فرزندان زمین نے سر انجام دئیے.
علاقہ وائز حملوں کی فہرست
بلوچستان لبریشن فرنٹ نے سب سے زیادہ حملے تربت میں کئے جن کی تعداد تینتالیس تھی جبکہ مند اور تمپ میں سینتیس حملے ہوئے.آواران،مشکے اور جھاؤ میں چونتیس حملے کئے گئے.دشت اور گوادر میں پندرہ حملے جبکہ کولواہ میں گیارہ ،پنجگور میں چودہ ،بالگتر میں سات ،خضدار میں چھ ،زامران میں پانچ ،بلیدہ میں چار جبکہ کوئٹہ،تجابان،مستونگ اور جیوانی میں دو دو حملے ریکارڈ ہوئے.خاران،واشک اور جیکب آباد میں ایک ایک حملہ ریکارڈ کیا گیا.
ان تمام حملوں میں سیبدان حملے نے پاکستانی فوج کو شدید ذہنی و جسمانی حوالے سے نقصان سے دو چار کیا جس کا واضح ثبوت پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو مرتبہ تربت کا دورہ کیا تاکہ پاکستانی فوج کے گرتے ہوئے مورال کو بحال کیا جائے جو سیبدان حملے کے بعد خاصا گر چکا تھا کیونکہ اس حملے میں سینکڑوں ریگولر آرمی ہلاک ہوئے تھے.
تنقیدی نقطہ نظر
بلوچستان لبریشن فرنٹ کی سالانہ کاروائیاں بہت منظم انداز میں سر انجام دی گئیں لیکن کچھ کمزوریاں جو اس کالم میں ظاہر ہے کہ بی ایل ایف جو بلوچستان کی ایک متحرک مسلح آرگنائزیشن ہے اس کے زیادہ تر حملے ضلع کیچ اور مکران ڈویژن میں سر انجام دئیے گئے جبکہ ضلع کوئٹہ اور خضدار میں نصف درجن سے آگے نہ بڑھ سکی جبکہ سندھ میں ایک ،ضلع خاران میں صرف ایک حملہ ہوا جس کے لئے تنظیم کے رہنماوں کو غور و فکر کی ضرورت ہے کہ بلوچستان کی متحرک تنظیم کو پورے بلوچستان کو کیسے فعال کیا جائے.
جبکہ بلوچستان لبریشن فرنٹ نے پورے سال کے دورانیے میں تنظیم کے ممبروں کو ایک بھی تربیتی کتابچہ فراہم نہیں کیا جن سے ان کی سیاسی تربیت کی جاسکے جو بلوچستان لبریشن فرنٹ کے مقصد کا اہم حصہ ہے.
اختتامیہ
پوری ریاستی مشینری کا استعمال ،ڈیتھ اسکواڈ کی تشکیل کے باوجود پاکستانی ریاست بلوچ قومی تحریک کا راستہ روکنے میں مکمل ناکامی کا شکار ہے جو بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی کامیاب پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جنہوں نے مشکل وقت میں بھی ریاستی فوج اور مشینری کو نقصان سے دوچار کرکے انہیں ذہنی و جسمانی نقصانات سے دوچار کیا ہے.
بلوچ عوام خاص کر نوجوانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور دیگر مسلح تنظیموں کا حصہ بن کر قومی جہد آزادی کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں .یہ تنظیمیں شہدا کی جدوجہد سے آج اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان خوفزدہ ہے اور تمام تنظیمیں اپنے عوام کو اپنی طاقت سمجھتی ہے اس لئے ان کے شانہ بشانہ جدوجہد کا حصہ بن کر ان کو مذید مضبوط کریںتاکہ آزاد بلوچستان کا مقصد پایہ تکمیل تک پہنچ سکے اور ہمیں ان درندوں سے چھٹکارہ مل سکیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں