آہ! میرل (شہید نثار بلوچ ) ۔ باہڑ بلوچ

512

آہ! میرل (شہید نثار بلوچ ) 

تحریر: باہڑ بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

میرل تمہاری شہادت سے لیکر اب تک میں اس سوچ میں رہا ہوں کہ تمہارے بارے میں اگر کچھ لکھوں تو تمہارے کردار کے بارے میں جذبات کی رو میں بہہ کر کسی صورت بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرونگا کیونکہ یہ تمہارے خون اور کردار سے انصاف نہیں ہوگا۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں ایک ایسے کاروان میں شامل ہوا جو نہ صرف ایک کاروان ہے بلکہ ایک درسگاہ ہے وگرنہ مجھے کیا پتہ تھا شناخت کیاہے،قوم کی اہمیت کیا ہے اور زمین سے سچی وابستگی کسے کہتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ نوآبادیاتی نظام کسے کہتے ہیں لیکن اب کی بار میرا گزر راسکوہ کے ان سنگلاخ پہاڑوں سے ہوا جہاں شہید نثار میرل پیدا ہوئے تھے، وہ جگہ جس نے سردار اور وڈیروں کی غلامی کے خلاف روز اول سے انگریز نوآباد کار کیخلاف مزاحمت کی ہے۔

راسکوہ جہاں میرا وجود بستا ہے، بے شمار التجاوں کے بعد میں اس مہروان کے گزارش پے راسکوہ کے اس چوٹی تک پہنچا جہاں مجھے اپنے ہونے کا احساس ہوا، جہاں میں نے خود کومحسوس کیا، جہاں مجھے لگا گویا شہید نثار میرل میرا انتظار کررہے ہو۔ ہاں یہ وہ جگہ ہے جہاں میں شہید میرل سے ملنے آیا تھا وہ میرا اس چوٹی پے انتظار کررہا تھا اگر تمہیں یاد ہو ہم نے یہاں بیٹھ کر کئی گھنٹوں بحث و مباحثے میں گزارے۔ یہ میری اس عظیم شخصیت سے پہلی ملاقات تھی ، جب کوئی عظیم ہستی سامنے بیٹھا ہو تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ہم سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جس میں ہمیں ڈانٹ پڑ جائے لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ اس عظیم انسان سے یہ میری آخری ملاقات ہوگی اور پھر راسکوہ کے سنگلاخ پہاڑ اس کا ہمیشہ انتظار کریں گے لیکن وہ کبھی لوٹ کے واپس نہیں آئے گا۔

کبھی سوچتا ہوں کہ کاش میں اس ہستی کے حوالے ایک کتاب لکھ کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرسکتا۔ کیوبا کے کاسترو اور ارجنٹائن کے چے گویرا کے مداحوں کو راسکوہ کے اس سنگلاخ پہاڑ پر زندگی کو نئی جہت دینے والے عظیم بہادر انسان کے جدوجہد سے روشناس کراسکتا۔

 میرل جیسے فرزند دنیا میں ظلم ؤ جبر کے خلاف چے گویرا اور کاسترو کے روشن کئے مشعل کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ کاش میں ایک مصور ہوتا تو مچل انجلو کے طرح اس عظیم انسان کی تصویر بنا کر دنیا کو پیش کرسکتا کہ تم کبرال اور نکرومہ کی بات کرتے ہو جو اپنے وطن کیلئے لڑے، میں فخر سے تمہارا یہ تصویر دنیا کو دکھا سکوں تم آزاد بلوچستان کیلئے اپنے آپکو قربان کر گئے۔ 

میرل سے باتوں باتوں میں میں نے سوال کیا کہ اگر یہ ظالم نوآبادکار اگر تمہارے سارے راستے مسدود کردے تو مستقبل میں آپ کیا کریں گے؟ تو اس نے مجھے فوراً روم کے لکھاری ہاویٹ کی مثال دی کہ جب ہاویٹ کو روم سے نکالا گیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ روم سلطنت نے ہاویٹ کو نکالا ہے ہاویٹ ہمیشہ اپنی نظموں اور تحریروں کی صورت میں رومی سلطنت کیخلاف مزاحمت کرے گا، میں یہ سن کر خاموش ہوگیا کہ اس عظیم انسان کو اپنے جدوجہد پر کتنا فخر ہے کہ وہ دعوے سے کہہ رہے ہیں کہ میں ہمیشہ نوآبادکار کیخلاف مختلف شکلوں میں یہاں آزاد بلوچستان کی آزادی تک جدوجہد کرتا رہونگا، گویا وہ مجھے آنے والے نوجوانوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہو جو پچھلے کئی سالوں سے بلوچستان کی آزادی کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں۔

کاش وقت کا پہیہ یہیں رُک جاتا اور میں اس سے ہزاورں سوال کر سکتا، میں اس سے یہ پوچھ سکتا کہ مجھے چیئرمین غلام محمد، لالا منیر ، بی ایس او آزاد کے رہنماء رضا جہانگیر اور قمبر چاکر کے سنگتی کے قصے سناؤں جو پچھلے ادوار میں نوآبادکار کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں، کاش میں اس سے سنگت ثناء کے صبر و برداشت اور قوم دوستی کے حوالے پوچھ سکتا جو بی ایس او آزاد کے کونسل سیشن میں ہار گئے اور پھر اپنے سنگتوں کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب میں جا کر یہ کہنا کہ میں اپنا ہار تسلیم کرتا ہوں اور نئے کابینہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ بخدا، ہم نے ایسی کہانیاں صرف رومانوی ناولوں میں ہی پڑھی ہیں، لیکن یہ تاریخی واقعات بلوچ راجدپتر میں سنگت ثناء کے کردار کو زندگی بخش رہے ہیں۔  

 بالاچ سے منسوب بہادری کی داستان تم سے ضرور پوچھتا جس کے حوالے خیر بخش مری سے کسی صحافی نے پوچھا کیا آپکو بالاچ کے انتقال کا دکھ نہیں؟ تو جواب میں بابا مری ایک افسانوی قصہ سناتے ہیں کہ ایک گاؤں میں کسی کا جوان بیٹا مر گیا اور وہ شخص اپنے بیٹے کی (دعا فاتح) میں بیٹھا لوگوں کے ساتھ ہنس رہا تھا جب کسی نے یہ دریافت کیا کہ کیا آپکو اپنے بیٹے کی جانے سے کوئی پریشانی نہیں تو وہ اٹھا پیشاب کرکے واپس آیا اور بیٹھے ہوئے شخص کو کہا جاکر پیشاب دیکھ لو درد کی شدت سے خون آرہا ہے۔ یہ تو محض ایک افسانوی کہانی ہوسکتی ہے لوگوں کیلئے لیکن اس کے پیچھے درد کی وہ کہانی ہے جو شاید بابا مری نے کھبی کسی کو سنائی نہیں ہوگی، اسلیئے یہ کہانی ہمیشہ ایک ان کہی کہانی سمجھی جائے گی۔

رات کا ایک پہر بیت گیا تھا لیکن شہید میرل راسکوہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں مسلسل بلوچستان کی باتیں کررہا تھا، وہ نوجوانوں کی سیاست پر بات کررہا تھا میں غور سے سن رہا تھا وہ اپنے بی ایس او آزاد کے دنوں کے قصے سنا رہا تھا، کبھی وہ چیئرمین ذاکر کے سیاسی دوروں کے بابت باتیں کرتا تو کبھی وہ پارلیمانی سیاستدانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور ہم خوب ہنستے تھے لیکن میرل جان آج اس بات کو ایک عرصہ بیت چکا ہے آپ سے بچھڑے ہوئے ۔ تم نے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں اس پہاڑ پر واپس ملوں گا لیکن میں آج کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد پہاڑ کے اس چوٹی تک پہنچ گیا ہوں جہاں پہلی بار ہم ملے تھے لیکن ہنستے مسکراتے چہرے کی جگہ صرف آپ کی یادیں رہ گئی ہیں۔

آج ایک عرصہ بیت گیا ہے تم سے ملے ہوئے لیکن اب کی حالت مختلف ہے، اب نوجوان سیاسی حوالے سے بیدار ہوچکےہیں، نوجوان سیاست کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔ 

اب وہ نوآبادکار اور نام نہاد پارلیمانی سیاستدانوں کی بات نہیں سنتے۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے بعد لوگوں نے اپنے بچوں کا نام میرل رکھا ہے، کاش تمہیں میں ایک خط بھیج سکتا جس میں آپکو بتا سکتا کہ آپکے بعد بلوچستان میں جہد آزادی کا کاروان کتنا توانا ہے اور تمہیں بتا سکتا کہ آپکے بعد راسکوہ کے سنگلاخ پہاڑوں کے باشندے اب استعمار کیخلاف پہاڑوں کا رخ کرچکے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں