بلوچستان میں بچے بوڑھے سب ریاستی جبر کے شکار ہیں۔ ماما قدیر بلوچ

272

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4921 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں لیاری کراچی سے عبدالوہاب بلوچ، دانشور صحافی عزیز سنگھور نے کیمپ آکر اظہارِ یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ غلامی کی اذیت ناک درد محسوس کو کرتے ہوئے بلوچ سرزمین پر بزور طاقت قابض پاکستان اور بلوچ قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جھکڑنے والے اُن قوتوں کے خلاف ایک ایسی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے جو کٹ مرنے سے بقا شناخت خوشحالی کے حصول کا ضامن ہے۔ بلوچ فرزندوں کی بازیابی کی جدوجہد پوری دنیا میں بلوچ اور بلوچستان زیرِ بحث ہے اور کئی ممالک نے اخلاقی حمایت بھی کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم نے خوشحالی کے لئے اپنی زندگی سمیت اہلِ عیال کی بیش بہا قربانیاں دیں۔ ریاست پاکستان میں جدوجہد میں 55,000 ہزار بلوچ جبری طور پر لاپتہ ہیں جو ریاستی ٹارچر سیلوں میں اپنی زندگی کی ہی نہیں بلکہ بلوچوں کی خوشحالی اور بقاء کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ ہزاروں بلوچ فرزندوں نے شہادت کا حصول اپنا کر یہ پیغام دیا کہ ہمارا لہو اسی لئے مقدس ہے کہ سرزمین کے فرزندوں کے لئے بہا ہے نہ کسی کرسی اقتدار اور نہ کسی مراعات نوکری کی حصول کے لئے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج ہزاروں بلوچ مائیں اپنی اولادوں بہنوں کی بھائیوں بچوں کے باپ اور خواتین سے ان کے شوہر چھین لی گئیں ہر گھر میں ماتم ہے ریاستی اداروں نے کم سن بختی سے لیکر بوڑھے بزرگ نواب اکبر خان بگٹی تک کسی کو بھی نہیں بخشا۔ ریاستی بربریت سے پورا بلوچستان سلگ رہا ہے کوئی شے محفوظ نہیں لاکھوں لوگ نقل مقانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایسے موقع پر کیا ہم اس ریاست کے گماشتوں کو اپنے سر پر کلہاڑی مارنے کے عمل کا حصہ بن جائیں جنہوں نے ہمیں اتنے زخم دیئے ہیں کہ جن کا علاج سوائے جبری لاپتہ فرزندوں کے بازیابی کے سوائے اور کچھ نہیں ہے۔