وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آج 4892ویں روز جاری رہا۔
آج بلوچ وومن فورم کی فرزانہ بلوچ، سماجی کارکن حمیدہ نور، نیشنل پارٹی خواتین ونگ کی صوبائی جنرل سیکریٹری کلثوم نیاز نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج کی اس فیصلہ کن سیاسی پرامن جدوجہد میں ریاست پاکستان اپنی تمام تر چالبازیوں تشدد ظلم جبر قتل غارت کے باوجود بلوچ پرامن جدوجہد کو عوامی عالمی پذیرائی سے روک نہ سکی ہے ۔
ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ اس وقت ایک قومی یکجہتی کی ضرورت ہے جس سے اداروں کے ان گماشتوں اور قابض کی ان گھناؤنی سازشوں کا مقابلہ قومی یکجہتی سے کیا جائے تاکہ ریاست پاکستان اور اس کے ایجنٹوں کا بلوچ قوم کو مزید غلام بنانے کا خواب کھبی پورا نہ ہوسکے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماورائے قانون اغوا کیا جاتا ہے۔ آج پاکستان کی ان سفاکیوں اور ناروا سلوک کو دیکھ کر بھی عالمی ادارے خاموش ہیں جبکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستانی ریاست پر دباؤ ڈال کہ ان کیسز کی تحقیقات میں بذات ِخود کردار ادا کرتا اور ایسے جنگی جرائم میں ملوث پاکستانی حکمرانوں اور ِخفیہ اداروں کے سربراہ پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلائے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں دس سال سے لیکر اسی 80 سالہ بزرگوں تک ریاستی فورسزز کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں آئے روز پاکستانی جیٹ طیارے بلوچ سول آبادیوں پر آتش و آہن برسا رہیں ۔
گھروں کو لوٹ کہ پھر انہیں جلانا فورسز کا معمول بن چکا ہے لیکن پھر بھی دنیا خاموشی توڑنے سے قاصر ہے دنیا کے مختلف ممالک میں بیٹھے بلوچ متحد ہو کر بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آگاہ کریں۔