گِرتی دیوار کو ایک اور دھکا
تحریر: فراز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گوریلا جنگ دنیا میں طاقتور اور مظلوم کے درمیان ہونے والی جنگ ہے جب ایک مضبوط ترتیب اور منظم دشمن کے خلاف ایک محکوم قوم فریق اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑ تا ہے تو وہ اس طرح لڑتا ہے کہ کم از کم نقصان پر دشمن کو شکست سے دوچار کرے۔ گوریلا جنگ کی حکمت عملی کا دشمن کے پاس کوئی توڑ نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ گوریلا جنگ میں حکمت عملی کو مزید منظم و متحرک کرنے کے لیے قابض ریاست کی کمزوریوں کا مطالعہ کرنا ہوگا ، گوریلا جنگ میں زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جدید بلوچ تاریخ میں انگریز سرکار اور پاکستانی ریاست کے خلاف لڑی جانے والی گوریلا جنگیں قابل ذکر ہیں، پاکستانی ریاست کے جبری قبضے کے خلاف بلوچ قوم نے اب تک چار گوریلا جنگیں لڑی ہیں۔ جبکہ جاری 22 سالہ بلوچ گوریلا جنگ کے حالات پہلے سے کہیں زیادہ موزوں اور واضح ہے۔
پاکستانی ریاست اپنی کمزور معاشی و مالیاتی کیفیت کی وجہ سے مختلف سامراجی ممالک کی کاسہ لیسی پر مجبور رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان خطے میں امریکہ کے گماشتے کا کردار ادا کرتا رہا ہے ، امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے دوران پاکستان کے جنرنیلوں اور حکمرانوں نے خوب مال بنایا ،لیکن امریکیوں کو ان کے ڈبل گیم کا بخوبی اندازہ ہونے کے باوجود لا محالہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے زریعے افغانستان کے معاملات چلانے کی کوشش جاری کرنا پڑا ، لیکن افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد آج امریکہ کو اس کی پہلی جیسی ضرورت نہیں رہی۔ افغانستان سے امریکی انخلاء ، گلوبل وارمنگ، روس یوکرین جنگ ، عالمی معاشی سست روی اور خطے کے تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال نے پاکستان میں معاشی و سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کیفیت سمیت دیگر بہت سے وجوہات کے باعث پاکستان آج اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔
پاکستانی اقتصادی پریشانیاں بڑھ رہی ہے تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، برآمدات میں کمی، افراد زر کی شرح میں اضافہ، بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ، اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پاکستان اس وقت ایک شدید کلیاتی معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہاں نئے تضادات جنم لے رہے ہیں جو اس ریاست کو مزید کمزور کررہے ہیں۔امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدگی کے باعث آئی ایم ایف IMF کے قرضے میں تاخیر ہورہی ہے جبکہ امریکہ مدد فراہم کرنے کے لیے وہ پہلے سے کئی گنا زیادہ سخت شرائط عائد کر رہا ہے اور اپنے غلام کو پہلے سے بھی کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار کررہا ہے۔امریکہ کی یہ کوشش درحقیقت جن کو بوتل میں بند کرنے کے مترادف ہے،
معاشی اور ریاستی بحران کے باعث تمام تر ریاستی ادارے جنہیں ریاست کا ستون بھی کہا جاتا ہے اس وقت شدید بحران اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ ریاستی ادارے جنہیں فوج براہ راست کنٹرول کرتی ہے ۔ جبکہ موجودہ صورتحال میں فوج کا ادارہ انتہائی شدید بحرانوں کا شکار ہے ، فوج میں سینٹرل کمانڈ کا پوزیشن ٹوٹ چکا ہے، اور یہی نہیں ملک کے معاشی بحران کے باعث اس کارپوریٹ فوج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ ملکی معیشت کے ایک بڑے حصے پر اس کارپوریٹ فوج کی اجارہ داری اور سرمایہ کاری موجود ہے ، رئیل اسٹیٹ سے لیکر سیمنٹ اور بیکنگ تک اور سینکڑوں مختلف شعبوں میں یہ کارپوریٹ فوج براہ راست ملوث ہے ، اس لیے معاشی بحران کے واضح اثرات اس کارپوریٹ فوج پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں ۔
امریکہ سے تعلقات کشیدہ ہوئے تو اس دوران پاکستانی ریاست نے فاشسٹ ریاست چین سے دوستی بڑھانی شروع کردی، چائنہ نے بہت تیزی سے سی پیک کی شکل میں بلوچستان میں اپنے پنجے گاڑ دیے، فاشسٹ چین نے اس موقع سے مزید فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی منڈی میں مزید گہری سرایت کے لیے تیز ترین اقدامات کیے، چین کے ساتھ پاکستان کے دفاعی تعلقات میں پاکستان کا انحصار امریکی اسلحے کے بجائے چینی اسلحے پر بڑھتا رہا۔ آج پاکستان چینی اسلحے کی دنیا میں سب سے بڑی منڈی ہے ۔ لیکن چین کی ریاست میں اتنی صلاحیت موجود نہیں کہ وہ پاکستان کو اسی انداز میں پال سکے جس طرح امریکہ اسے اپنے مفادات کے تحت سات دہائیاں پالتا رہا ہے ۔ پاکستان نے چین کو اپنے اقتصادی پروگرام کے تحت بلوچستان کے تانبے ، سونے، معدنی ذخائر اور گوادر بندر گاہ دینے کی پیشکش کی کے بدلے میں وہ چین سے توانائی کے شعبے، بلٹ ٹرین اور چند دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں۔ ان منصوبوں کا مقصد بلوچ وسائل کا استحصال ہے ۔ لیکن بلوچ قومی تحریک کی گوریلا جنگ نے بہترین حکمت عملی سے چین کے مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا ہے ۔ بلوچ گوریلاؤں نے پاکستان چین اقتصادی مفادات پر کامیاب حملے کرکے یہ ثابت کیا کہ ظالم ریاست خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو عزم و حوصلے اور جہد مسلسل سے اس کو شکست دی جاسکتی ہے ۔بلوچ گوریلا جنگ سائنسی اصولوں پر کار بند ہے۔
پاکستان کی موجودہ ریاستی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی بحران کا ہمارے عظیم گوریلاؤں کو یقیناً ادراک ہوگا۔ لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ بہتر انداز میں سائنسی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھیں۔ ٹھوس منصوبہ بندی سے اس کی کمزور معیشت پر کاری ضرب لگا کر اس کی سپلائی لائن اور اس کے انرجی کے ذرائع پر بھرپور حملے کرکے ریاست کی کمزور بنیادوں پر قائم ظلم کی دیوار کو گرا دیں ۔ کیونکہ یہ لمحہ اہم ہے جرآت و بہادری سے اس لمحے کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ پھر دیکھیں شاندار فتح بلوچ اور بلوچ گلزمین کا مقدر بن جائے گا۔
فرانز فینن کہتے ہیں کہ “ظالم کو اس بات سے کوئی خوف نہیں کہ اس کے خلاف کیا کہا جا رہا ہے کیا لکھا جا رہا ہے، عوام کو اس مایوسی کی صورت سے نکالنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ان کو یہ باور کرایا جائے کہ ظالم ریاست کی بنیادیں کتنی کمزور ہیں، اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اس جابر ریاست کا زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہو۔”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں