بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم دہائیوں سے ریاستی جبر و استحصال کا شکار ہے۔ گوادر میں حق زندگی اور روزگار کے لیے بلوچ قوم کا یہ پہلا احتجاج نہیں ہے۔ جنرل مشرف کی آمریت کے دور میں بلوچ قوم نے آئینی حقوق کے لئے احتجاج کیا تو گوادر سمیت پورے بلوچستان میں سیاسی کارکنوں پر کریک ڈاؤن کرکے سرکردہ رہنماؤں کو جیل و نظر بند کیا گیا۔
انھوں نے کہا ترقی کے نام پر سبز باغ دکھا کر بلوچ سرزمین میں بنیادی باشندوں کی زندگی کو اجیران کردیا گیا ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر کے وقت بلوچ سیاسی قوتوں نے اس بات کی پیشنگوئی کی تھی کہ گوادر پورٹ کی تعمیر کا مقصد ترقی کے نام پر بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار اور بلوچ کو اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
ترجمان نے کہا کہ مسلسل ریاستی مظالم کے سبب بلوچستان میں انسانی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ طلباء و سیاسی کارکنوں سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کی ماورائے آئین گرفتاریاں اور قتل نے پورے سماجی نظام کو اپاہچ کرکے رکھ دیا ہے جبکہ دوسری جانب مسلسل جبر کے ذریعے پرامن سیاسی عمل کو شجر ممنوعہ کرار دیا جاچکا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی بحران پیدا کرکے اب ریاستی ادارے من پسند افراد کے زریعے بلوچستان میں جاری رکھے جانے والے مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔
بلوچ عوام ریاستی جبر اور کریک ڈاؤن سے تنگ آکر روز پرامن احتجاج اور مظاہروں کے زریعے آئینی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن ریاستی میڈیا اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار کا کردار ادا کرکے خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ بلوچ عوام اور سیاسی کارکنوں پر کریک ڈاؤن کے بعد بلوچستان کی قومی سیاست کو کمزور کرنے کے لیے مذہبی رجعت پسند اور بنیاد پرست عناصر کو فرنٹ لائن میں لانے کا مقصد قومی سوال کا گلہ گھونٹنا ہے۔ روز نت نئے سازشوں کے زریعے بحران پیدا کرکے عوامی جذبات و احساسات کو چھلنی کیا جارہا ہے اس کا واضح ثبوت گوادر میں جبر استبداد سے تنگ عوام کو ایک مخصوص اور پلانٹڈ پالیسی کے تحت دھوکہ دیا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حقائق کو چھپانے کے لیے حکمرانوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک انھیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکا ہے تو ملکی پالیسی ساز ادارے اپنے غلط پالیسیوں کو ادراک رکھتے ہوئے بلوچستان میں سیاسی انجنیئرنگ کے عمل کو برقرار رکھنے کے بجائے عوامی مسائل و مشکلات کم کرنے کی طرف توجہ مرکوز کریں۔ بلوچستان میں اس طرح کی آزمائشیں نئی نہیں ہیں اور نہ ہی اس طرح کے پالیسیوں سے بلوچ قوم پر گزرنے والے مظالم پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے اور نہ ہی جاری مظالم، قومی ساحل و وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف سمجھوتہ کرکے اپنی قومی سیاست سے دستبردار ہوں گے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ان حالات کے پیدا ہونے میں بلوچ سیاسی پارٹیوں کے کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور انھی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر مقتدر قوتوں نے گوادر کے عوام کے بنیادی مسائل کو جواز بناکر سیاسی انجنئیرنگ کے زریعے عوام کو دھوکہ دینے کے مرتکب ہورہے ہیں۔
ترجمان نے آخر میں بلوچ سیاسی قیادت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وقت کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر گوادر سمیت بلوچ وطن کے بنیادی مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے ان کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کیلئے نئے راستے تلاش کریں تاکہ بلوچ سرزمین میں مظالم کا روک تھام اور منفی عناصر کے خلاف پیش بندی ممکن ہو سکے۔