بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہفتے کے روز پاکستان اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے درمیان ریکوڑک معاہدے کے خلاف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں کثیر تعداد میں خواتین اور مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور ریکوڑک معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ریکوڑک سے پہلے بھی بلوچستان میں جب بھی بلوچ وسائل کی سودے بازی کی گئی ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف وسائل کی لوٹ مار ہوئی ہے بلکہ ان سامراجی کمپنیوں نے بلوچستان بھر میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل بھی کی ہے اور بلوچ وسائل کی ناجائز قبضہ کے ساتھ لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک، آوازوں کو دبانے اور مقامی افراد کو ان کے روزگار سے محروم بھی رکھا جاتا ہے اور مقامی افراد کو غلاموں جیسا سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔ چاغی کے علاقے سے ہی سیندک اس کی ایک واضح مثال ہے۔
یہ بھی پڑھیں: متنازعہ ریکوڈک بل پر سیاسی رسہ کشی
انہوں نے کہا کہ جہاں مقامی افراد کو غیر ملکیوں اور قبضہ گیروں کی جانب سے ظالمانہ سلوک کا سامنا ہے۔ سی پیک کی شکل میں بھی آج بلوچ سنگین خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔
مقررین نے کہا کہ اگر ان وسائل کی سودے بازی اور لوٹ مار میں مقامی افراد کو کچھ ملا ہے تو وہ بھوک، افلاس، پسماندگی، قتل اور نسل کشی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ بلوچ وسائل سے پنجاب تو آباد ہوئی ہے لیکن بلوچ زمین آج بھی ویران ہے جہاں لوگوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور بلوچوں کا قتل عام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور آج اپنے ساحل و وسائل کی حفاظت سے آگاہ ہے اگر ریاست اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے بدلے بلوچ عوام کے وسائل کو لوٹنے کا عمل ترک نہیں کرے گا تو بلوچ اپنے زمین کی اور اس کی وسائل کی حفاظت اپنی سیاسی جدوجہد کو ہر صورت جاری رہے گا اور جب تک وہ ان وسائل کا خود اختیار نہیں رکھے گا وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔ آج بلوچ قوم کو ایک کالونی کی حیثیت سے ڈیل کیا جا رہا ہے اور جہاں بھی لوٹنے کا موقع ہاتھ آتا ہے تو سب ایک ساتھ جڑھ جاتے ہیں لیکن بلوچ اپنی قوت اور طاقت کے مطابق ان کی ہمیشہ مخالفت جاری رکھے گا۔