ڈیرہ جات میں حریت پسندی (حصہ سوم) ۔ واھگ

636

ڈیرہ جات میں حریت پسندی (حصہ سوم) 

تحریر: واھگ

دی بلوچستان پوسٹ 

بیسویں صدی کی ابتداء سے کچھ عرصہ پہلے انگریز فوج کے بوٹوں کی آواز اس خطے میں چار سوسنی جاتی تھی، جو قبضہ گیریت کی نیت سے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرکے اپنی سیاسی ، معاشی، فوجی مفادات حاصل کر کے دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ یہاں پر بسنے والے ضمیر فروش ،وطن فروش اور بلوچ دشمن سرداروں نے انگریز قابضین کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اُنہیں مدد دینے کے بدلے جاگیریں اور سر جیسے خطاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور بلوچ وطن اور قوم کا سودا کر دیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ ڈیرہ کے رہنے والے سرداروں جن میں بزدار ، نتکانی، گورچانی, کھوسہ ،لنڈ، مزاری،دریشک، قصیرانی ،لیغاری نے چند سو روپے کی خاطر اپنا ضمیر فروخت کیا کہ انگریز سرکار خود کہتے ہیں کہ ہمیں ان پر حیرت ہوئی کہ وہ اتنی کم قیمت میں ہمارے لئے کام کرنے پر راضی ہوئے جس کے بعد ان سرداروں کی طرف سے ہمیں کسی قسم کا کوئی مشکل کا سامنا نہ رہا اور ہم نے آسانی سے اُن کے وطن پر قبضہ کرلیا ۔

انگریز فوجیوں کے بقول وہ ہمیں آسانی سے شکست دے سکتے تھے لیکن انہوں نے مراعات لے کر اس علاقے میں ہمارے لئے کام کیا جس کی وجہ سے یہاں پر موجود علاقے اور اقوام ہمارے زیر تسلط رہے ۔ جن میں آج بھی وہ اقوام غلامی اور محکومی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں لیکن بلوچ غیور عوام کی طرف سے ہمیشہ ان کو مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔

اگر غلامی کی انتہا کی بات کی جائے تو انگریزوں اور سرداروں کی طرف سے ان عظیم ہستیوں کو ڈاکو ،چور ،بدمعاش ،قاتل کے طور پیشِ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں پر بسنے والے غیر شعور یافتہ طبقہ متاثر ہوئے بنا نہ رہے سکے اور آج اپنے قومی ہیروز کو قاتل اور دشمن کو اپنا رہبر مانتے ہیں۔ جس کے سبب ان عظیم ہستیوں کے کردار کو نہ لکھا گیا نہ ان پر بات کی گئی ہے اور نہ ہی اپنے آنے والی نسلوں کو ان کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے۔ میں بحیثیت بلوچ ان عظیم ،گمنام ہستیوں اور انکے کرداروں و روحوں سے معافی چاہوں گا کہ ہم آپ کے اس فلسفے اور مزاحمت کو نہ سمجھ سکے اور نہ ہی اس پر عمل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

کوڑا خان قیصرانی بلوچ کا تعلق ٹبی قیصرانی سے ہے جو حال میں ڈیرہ غازی کے تحصیل تونسہ میں واقع ہے۔ ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا جو اپنے مال مویشیوں کے ساتھ بلوچ وطن پر خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ جب انگریز فوج نے بلوچ وطن پر قبضہ کر لیا اُس وقت قبیلہ قیصرانی کے سردار فضل علی خان کے والد ان کے کم سنی کے عمر میں دنیا سے چل بسے تو یہاں کے رہنے والے قبائلیوں کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ کہ فضل خان کے کم سنی کی وجہ سے سرداری کے زمہ داریاں ان کے اپنے ماموں کوڑا خان کو دی جائیں۔ کوڑا خان قیصرانی کو چند عرصے کے لئے قیصرانی قبیلے کا سربراہ مقرر کیا گیا جنہوں نے احسن طریقے سے اپنی ذمے داریاں نبھائے اور اپنے قبیلہ کا دشمنوں سے تحفظ کیا۔

تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی

تیر پہلے کس نے مارا یہ کہانی پھر سہی

انگریز فوج کوڑا خان قیصرانی کو باقی باجگزار سرداروں اور تمن داروں کی طرح خرید نہ سکے جس کی وجہ سے وہاں کے سرداروں اور انگریزوں کی ملی بھگت سے وہاں کے لوگوں کو کوڑا خان قیصرانی کے خلاف کمربستہ کرنے اور انہیں کمزور کرنے کے لئے ہزاروں کوششیں کی گئیں تاکہ کوڑا خان قیصرانی انگریز فوج کے سامنے سر نہ اٹھا سکیں۔

آخرکار انگریز کے فوجی دستے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور اپنے باجگزار سرداروں کو مضبوط کرکے اپنے مفادات حاصل کر سکے اور باجگزار سردار اور تمنداروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا جس کا عذاب آج بھی غلامی کی شکل میں یہاں کے رہنے والے بلوچ قبائل برداشت کر رہے ہیں۔

کوڑا خان قیصرانی کے خلاف لوگوں کو اکسایا گیا حتیٰ کے ان کو کئی مواقع پر مارنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے فرزند نے ایک موقع پر وہاں سید شاہ نام کے فرد کو کسی الزام میں قتل کردیا جس کے خلاف سید شاہ کے لوگوں نے ان کے خلاف برٹش حکومت کا ساتھ دیا تاکہ ان کو گرفتار یا ان کو شہید کرکے ان کے سیاست اور مزاحمت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکے۔ انگریز سرکار نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فوراً ان کے خلاف ایکشن لینے کی کوشش شروع کردی اور لیفٹینٹ گرے کو فوجداری مقدمہ قائم کرنے کے لئے ٹبی قیصرانی بھیج دیا گیا۔

لیفٹیننٹ گرے کشتی کے ذریعے ٹبی قیصرانی پہنچ گئے لیکن گرے کے فوجیوں کا دستہ راستے میں گم ہونے کے باعث ٹبی قیصرانی نہ پہنچ سکے اور وہ اپنے دیگر عملے کے کچھ ملازمین کے ہمراہ تنہا رہ گئے ۔ 8ستمبر کی صبح لیفٹیننٹ گرے سے ملاقات کرنے کے لئے جب کوڑا خان کے فرزند جہانگیر قیصرانی اُن کے ہاں گئے تو گرے نے تحکمانہ انداز سے حکم دیا کہ جہانگیر خان کو گرفتار کر لیا جائے۔ گرے کے الفاظ اخلاقی میعار سے گرے ہوئے تھے کیونکہ گرفتاری کا سبب حکمرانی تھا لیکن بلوچی خون بھی اپنی جگہ ایک جداگانہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے وہ یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکے، جہانگیر خان اور قیصرانی بلوچ برانگیختہ ہوگئے اور اُن کے ہکل پر بلوچوں کی مسلح افراد کا گروہ لیفٹیننٹ گرے پر حملہ آور ہوئے اور انہیں قیدی بنالیاگیا۔

کوڑا خان قیصرانی کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ وہاں پر پہنچ کر گرے کو گرفتار کر کے پہاڑوں کی طرف چلے گئے۔ بلوچوں کا یہ عمل تاریخ میں ایک منفرد نوعیت کا واقعہ تھا اور گورنمنٹ برطانیہ کے لئے یہ سب توہین آمیز بات تھی۔ گرفتار شدہ ایک سول آفیسر اور مجسٹریٹ تھا جس کی بلوچوں کے ہاتھوں گرفتاری ایک دھچکے سے کم نہ تھا۔

اس واقعے کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی کہ کہ اس جرات مندانہ اور بے باکانہ فعل کا مرتکب ایک با اثر بلوچ سردار تھا جو لیفٹیننٹ گرے کے گرفتاری کے بعد اپنے قبیلے کی پناہ و حفاظت میں پہاڑوں میں ایک باغی کی حیثیت سے چلا گیا۔ یہ ارتکاب صرف قبیلہ کیلئے ترغیب نہیں تھی بلکہ دیگر باغیانہ اذہان میں بھی اس قسم کی انگیخت جنم لے سکتی تھی اور پھر مختلف قسم کی منصوبہ بندی بھی منصہ شہود پر آسکتی تھی جو سرکاری افسران و اہل کاروں کو یرغمال بنانے پر منتج ہوتی جو انتہائی خوف ناک اور خطرناک انجام کی محمول بنتی اور اس نظریہ کو لے کر کوڑا خان قیصرانی کا تعاقب کیا گیا۔

انگریز فوج نے اسی دوران تمام بلوچ سرداروں اور تمن داروں کو جو انگریزوں کے باجگزار تھے کو کوڑا خان کے گرفتار اور شہید کرنے کا حکم دیا۔ انگریز فوج نے اعلان کیا کہ جو بھی کوڑا خان کو گرفتار کر کے انگریز سرکار کے حوالے کرے گا اس کو انعام ؤ اکرام سے نوازا جائے گا۔ اعلان کے ساتھ ہی سرداروں نے کوڑا خان کو گرفتار کرنے لئے مکمل مسلح دستے تیار کر لئے اور خلاف جنگ کے لیے نکل پڑے۔ کوڑا خان کی جانب سے گرے کو شمتالہ کے مقام پر ایک غار میں رکھا گیا جو آج بھی ان علاقوں میں گرے جڈی یا گرے ہوڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، بلوچی زبان میں ہوڈ یا جڈی غار کو کہا جاتا ہے۔

لیفٹیننٹ گرے کے واقع کے بعد انگریزوں کی جانب سے سردار فضل علی کو قیصرانی قبیلے کا سربراہ مقرر کیا گیا جو اس وقت انگریزوں سے نقد 1200روپے بطور عطیہ وصول کرتے تھے۔ وہ کوٹ قیصرانی کے لوگوں کے ہمراہ انگریزوں کے ساتھ مل کر کوڑا خان قیصرانی کے تعاقب میں شریک ہوئے تھے۔ اس دوران جنہیں یہاں کے رہنے والے بلوچ سید ولی اور خواجہ کے نام سے جانے جاتے ہیں بلوچوں کی ان مذہبی پیشواؤں کے باجگزاری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور پیر مہر علی شاہ نے بزدار قبیلے کو پیغام بھیجا جو قیصرانی قبیلے سے ملحق تھی کہ وہ کوڑا خان قیصرانی کا راستہ بند کر کے اُنہیں گرفتار کرلیں۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں