بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں لیڈی ڈاکٹر اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے دوران زچگی شرح اموات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پانچ دنوں کے دوران چار مائیں بچوں سمیت زندگی کی بازی ہار گئیں۔
علاقے میں لیڈی ڈاکٹر اور سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر اسطرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، تاہم کم ہی واقعات میڈیا میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
علاقائی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے حالت میں لوگ مجبور ہیں کہ اپنے لوگ کو ڈیرہ بگٹی سے کئی سو کلومیٹر دور پنجاب اور دیگر علاقوں میں لے جائیں تاہم خراب سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے وجہ سے وہاں پہنچنے سے پہلے حاملہ خواتین اکثر زندگی کی باز ہار جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں غریب اور متوسط طبقے کی ایسی بہت سی خواتین کے لیے بچے کو جنم دینا جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے ) کے مطابق بلوچستان میں ہر تین گھنٹے میں ایک عورت زچگی کی ایسی پیچیدگیوں کے باعث مر جاتی ہے جن کا علاج کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
یہ تناسب ایک لاکھ پیدائشوں پر 187 اموات کا ہے یعنی بلوچستان میں اموات کی یہ شرح پاکستان کے باقی حصوں سے تقریباً 40 فیصد زائد ہے۔
بارکھان، شیرانی، آواران، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، موسیٰ خیل، واشک، خاران سمیت بلوچستان کے ان اضلاع میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح زیادہ ہے جہاں زچہ و بچہ کے لیے جامع دیکھ بھال کی سہولیات یعنی ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال سمیت تربیت یافتہ طبی عملہ، لیبر روم، آپریشن تھیٹر اور دیگر ضروری سہولیات موجود نہیں۔‘
بلوچستان کے 33 اضلاع میں سے صرف خضدار، تربت، سبی، جعفرآباد اور حب کے سرکاری ہسپتالوں میں سیزرین سیکشن آپریشن ہو سکتے ہیں۔ یعنی بلوچستان کے 85 فیصد اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ یا پھر ایسی سہولیات ہی نہیں جن کی مدد سے زچگی کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے نمٹ کر ماؤں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکیں۔
ایسی صورت میں بلوچستان میں حاملہ خواتین کو محفوظ طریقے سے بچے کو جنم دینے کے لیے 600 کلومیٹر تک کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد کوئٹہ یا پھر کسی دوسرے بڑے شہر کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہے۔
بلوچستان میں محکمہ صحت کے ملازمین کی تعداد 29 ہزار سے زائد ہیں تاہم ان میں گائنا کولوجسٹ کی تعداد تقریباً 50 اور خواتین میڈیکل آفیسرز (لیڈی ڈاکٹر) 700 کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے بھی نصف سے زائد لیڈی ڈاکٹرز کوئٹہ میں تعینات ہیں جبکہ باقی اضلاع میں بڑی تعداد میں یہ آسامیاں خالی بھی ہیں۔