مذہبی سیاسی جماعتیں اور مقبوضہ بلوچستان ۔ بہادر بلوچ

558

مذہبی سیاسی جماعتیں اور مقبوضہ بلوچستان 

تحریر: بہادر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

‏برصضیر پاک و ہند میں مذہبی جماعتوں کا ایک خاص کردار رہا ہے جہاں اسلامی عقیدے کی پرچار کے لیے اور اپنے آقاوُں کو خوش کرنے کے لیے قوم کو مذہبی رسومات میں مگن کرکے قبضہ گیر کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں۔ برصغیر میں اس دُور کے قبضہ گیر برطانیہ نے پورے ہندوستان میں مذہب کا جال بھچا کر مذہب کے رکھوالوں کو اپنا جانشین اور ساتھی بنایا تاکہ کسی بھی طرح برصغیر پر برطانیہ کی شنہشاہت اور اثررسوخ کو برقرار رکھا جاسکے۔ برطانیہ نے اپنی لوٹ کھسوٹ کو پروان چڑھانے کے لیے مذہب کارڈ کا بے دریغ استعمال کرکے برصغیر کے تمام مذہبی ٹھیکداروں اور مُلاوں کو اپنا ساتھی اور ہمنوا بنا کر حکومت کی ہے ۔

‏برصغیر کی منصوبہ بند تقسیم کے بعد سے لیکر پاکستانی ریاست کا قیام مقبوضہ بلوچستان کے لیے ایک درد سر بن گیا ہے کیونکہ اُس وقت محمد علی جناح نے سر سید احمد خان کے دوقومی نظریہ کا سہارہ لے کر مذہب کے نام پر ایک ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے پاکستان کو ایک جعلی مذہب کا لبادہ پہنا کر پورے دنیا کو خطرے سے دوچار کیا ۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر مذہبی مدرسوں اور جہادی تنظمیوں سے واستہ جوڑ کر سویت یونین جیسے طاقت سوشلسٹ ریاستوں کے یونین میں تباہی مچادی تھی ۔

بنگلادیش میں جماعت اسلامی نے ریاست پاکستان کا مذہبی مہرہ بن کر بنگالی لڑکیوں کی عصمت دری کی اور لاکھوں بنگالیوں کی خون سے ہولی کھیلی گئی ۔ جماعت اسلامی آج بھی ریاست کے گُماشتے کا کردار ادا کررہا ہے اور بلوچستان میں انسانیت سوز واقعات میں ریاست کے معاون کا کردار ادا کررہا ہے۔

‏پاکستان میں شروع دن سے فوج کا راج رہا ہے جہاں جنرل ایوب سے لیکر جنرل باجوہ تک اپنے سیاسی مقاصد اور ترجیحات کی خاطر مذہب کا کارڈ استعمال کرکے دنیا کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور دوسرے ممالک کے خلاف پاکستان کے مذہبی جماعتیں پروکسیز کا کردار ادا کررہے ہیں ۔

‏بلوچستان جو کئی دہائیوں سے پاکستان کے ظلم و جبر کا شکار ہے۔ بلوچوں پر ریاستی جبر روز کا معمول بن چکا ہے ۔ آئے روز جبری گمشدہ افراد کا معاملہ یا جعلی پولیس اور فوج کے مقابلوں میں گمشدہ افراد کا قتل ایک نا ختم ہونے والا رُخ اختیار کرچکے ہیں، دوسری طرف عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی پاکستانی مظالم کے خلاف ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ پاکستان اپنے گُماشتہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو سامنے لاکر عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ بلوچستان کے وسائل پر اپنا ناجائز حق کو قانونی شکل دے سکے اور بلوچستان کو اِن مذہبی جماعتوں کے ذریعے نوچ نوچ کر کھایا جاسکے۔

‏پاکستان مذہب کا سہارہ لے کر بلوچ قوم کو تعلیم سے دور کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ پہلے پنجگور میں مذہب کے نام پر بچیوں کے سکول جلائے گئے اور اب پورے بلوچستان میں سکول جلائے جارہے ہیں تالہ بلوچ تعلیم سے دور ہو کر مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں استعمال ہوسکیں ۔

‏گودار میں جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ھدایت رحمان اچانک نمودار ہوئے اور گوادر کے لوگوں کی حقوق کے لیے احتجاج کا راستے اختیار کرلیا ۔ احتجاج سے گوادر کے ساحل میں نہ غیرملکی ٹرالروں کا آنا جانا بند ہوا اور نہ ہی گوادر کے مقامی لوگوں کا سمندر جانے کے لیے راہ ہموار کیا جاسکا ۔ اِن احتجاج سے گوادر کے حقوق تو نہ مل سکے لیکن اُن پر ریاستی تشدد میں اضافہ ہوا ہے ۔ محکوم اقوام کے لئے آزادی کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔گودار کے لوگوں کو آزادی کے راستے سے دور کرنے کے لئے مولانا ھدایت کا استعمال کیا جارہا ہے تاکہ لوگوں کو چھوٹے موٹے مسائل سے الجھا کر تحریک سے دور کیا جائے ۔

پاکستان میں 2023 کے الیکشن ہونگے اور بلوچستان میں بھی نئے چہرے اور گُماشتے سامنے لائے جائیں گے ۔ اسی لئے الیکشن سے پہلے اِن چہروں کو لوگوں سے متعارف کرنے کے لئے چھوٹے موٹے مسائل کو لے کر تحریکیں چلائے جارہے ہیں ۔

مذہبی جماعتوں کو آنے والے الیکشن کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کے کچھ نام نہاد سردار مذہبی پارٹی کا حصہ بن رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے جمیعت علماہ اسلام میں نواب اسلم رہیسانی کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست آنے والے الیکشن میں اپنے مہروں کو تیار کررہا ہے اور آج سردار ظفر زہری کا بھی جمیعت میں شمولیت کرنا بھی اس بات کو یقین میں بدل دیتا ہیکہ ریاست مقبوضہ بلوچستان کی لوٹ کھسوٹ کےلیے آنے والے وقت مذہبی جماعتوں کو استعمال کرسکے ۔ ریاست بلوچستان کو مذہبی الجھنوں میں پھنسانا چاہتا ہے تاکہ بلوچستان کی تحریک آزادی کو دبا سکے ۔

‏بلوچستان میں پہلے بھی ریاست نے مذہبی ڈیتھ اسکواڈز کو استعمال کیا ہے ۔ کچھ سال پہلے کیچ کے شہر پیداراک میں زگریوں کی مقدس جگہوں پر ریاست کے حمایت یافتہ مذہبی ڈیتھ اسکواڈ کا حملہ آور ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست بلوچ قومی جدوجہد کو کمزور کرنے کے لیے ایسے طریقے استعمال کررہا ہے تاکہ بلوچ تحریک کو ختم کیا جاسکے۔ کوئٹہ میں داعش اور لشکر جھنگوئی جیسے ریاستی دہشت گردوں کا شیعہ کمیونٹی کا قتل عام اس بات کی کڑی ہے کہ ریاست بلوچستان میں مذہبی دہشت گردوں کو سامنے لاکر قتل غارت گری کا بازار گرم کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوجائے۔

‏بلوچستان کے رہنے والے لوگ ریاست کی بنائی ہوئی مذہبی جماعتوں سے اب خوب آشنا ہیں ۔ ان کا نہ اسلام سے کوئی واستہ ہے نہ لوگوں کے حقوق سے بلکہ یہ لوگ مذہب کا لبادہ پہن کر پیسے اور اپنی ترجیحات کے پُجاری ہیں فلسطین اور کشمیر کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں لیکن بلوچستان میں آئے روز بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں اور جبری گمشدہ افراد کے مسلے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں