محمودخان اچکزئی کی خدمت میں
تحریر: غلام دستگیرصابر
دی بلوچستان پوسٹ
یہ تقریباً 1986 کاواقعہ ہے۔ جب عظیم بلوچ قائدین سردارعطاء اللہ خان،نواب خیربخش مری جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔صرف بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو اور طلباء تنظیم بی ایس او سیاست میں سرگرم عمل تھے۔کسی حدتک سیاسی جمود طاری تھی۔اس وقت اسماعیل بلوچ نامی ایک نوجوان نے،،بلوچ اتحاد،،نامی تنظیم کانعرہ بلندکیاان دنوں نواب محمد اکبر خان بگٹی سیاسی طور پر گوشہ نشین اورخاموش تھے ۔ دوسری جانب ایک منظم سازش کے تحت برادر بلوچ پشتون اقوام کولڑانے کی سازش ہوئی اور اچانک،،بولان تاچترال،،کانعرہ بلندہوا۔
بلوچ اتحاد کے قائداسماعیل بلوچ نے نواب محمد اکبر خان بگٹی شہیدکومیدان میں لانے کا فیصلہ کیا۔بڑی مدت بعد بلوچوں میں سیاسی ہلچل پیداہوئی۔یونیورسٹی کے سامنے میدان میں ایک بہت بڑاجلسہ ہوا۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لوگ بڑی تعداد میں جلسے میں شرکت کی اور بڑی مدت بعد نواب محمد اکبر خان بگٹی کو سننے کے بیتاب تھے۔
میں ان دنوں میٹرک کا طالب علم تھا۔ نوشکی سے بھی ایک قافلہ جلسےکے لئے روانہ ہوا جس میں میرے والد محترم منشی لطیف خان مینگل، ڈاکٹرسکندربلوچ، ممتازصحافی حاجی عبد المجید بادینی مرحوم اوردیگرلوگ شامل تھے۔ جب نواب صاحب تشریف لائے تو ہزاروں لوگوں نے نہایت گرمجوشی سے اسکااستقبال کیا۔عجیب ساسماں تھا۔لوگوں کاجوش اورخوشی دیدنی تھی۔
میں بھی جلسہ گاہ میں بیٹھا ہواتھا۔جب اسٹیج پرتقریر کے لئے میرے والد محترم کوبلایاگیا۔اس نے تقریر شروع کی اوردرمیان میں کہا،،چترال تمہیں مبارک اگرجس نے بولان کانام لیاتوہم اس کی آنکھیں پھوڑیں گے،،اس جملے پر کافی دیرتک تالیاں بجتی رہیں۔جب نواب شہید کی خطاب کی باری آئی تو نواب صاحب نے بھی یہی جملہ دہرایا۔
گذشتہ روزپشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نےکوئیٹہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچ ماماہمارے مطالبات تسلیم کریں ورنہ بلوچستان کی تقسیم کی بات کرینگے۔
خان صاحب آپ نے ایک طویل عرصہ بعد یہ نعرہ دوبارہ کیوں بلند کیا؟
یہ بات اہل بلوچستان خوب جانتے ہیں کہ آپ کی کشتی ڈوبنے والی ہے۔خان صاحب، یہ نوے کی دہائی نہیں کہ ٹرانسپورٹ کے جھگڑے پرلہڑی اور پیرعلی زئی کے ذاتی تنازع کوبلوچ پشتون جنگ قرار دیا جائے۔
خان صاحب آپ نے نوے کی دہائی میں بلوچ پشتون برادراقوام کولڑایاجس کے نتیجے میں سانحہ دس اکتوبر اورسانحہ گیارہ اکتوبرکےخونی واقعات ہوئے جس میں نوبلوچ پشتون سمیت آپ کی پارٹی کے رہنما رحیم کلیوال بھی ماراگیا پھربھی آپ کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔
خان صاحب آپکی وجہ سے عظیم پشتون قوم کےدو قبیلوں حمیدزئی اورغیبی زئی کے چارسو پیروجوان خون میں نہلائے گئے۔مگرآپکی نفرت اوربرادرکشی کی آگ نہیں بھجی۔کتنی پشتون ماؤں کے گودآپ نے اجاڑے،کتنی جوان بہنوں کوآپ نے بیوہ بنایا،کتنی معصوم بہنوں کے جوان بھائیوں کوقبائلیت کے نام پرخون میں نہلایا،کتنے معصوم بچوں اور بچیوں کو یتیم بنایا،تم نے جنت جیسے علاقہ گلستان کوخون اورآگ میں نہلاکر دوزخ میں تبدیل کیا۔
کیایہ قوم پرستی ہے؟
خان صاحب بعد میں عظیم بلوچ لیڈر سردار عطاء اللہ خان مینگل اوردیگربلوچ پشتون قائدین نے آپ کوپونم کے پلیٹ فارم سے تعصب اور نفرت کی سیاست سے نکال لایا۔ خان صاحب آپکویادہے کہ بلوچ علاقوں میں لوگوں نے کتنی گرم جوشی سے آپ کا استقبال کیااورعزت دی۔ بلوچ پشتون نفرت ہمیشہ کے لئے دفن ہوئی۔مگرآپ کی اقتدارکی لالچ ختم نہیں ہوا۔عظیم پشتون قوم نے 2013 میں قوم کے نام پر آپ کی پارٹی کوبھرپور ووٹ دیا۔تب آپ کا اصلی چہرہ سامنے آیا۔
آپ نے قومی پارٹی کو خاندانی پارٹی بنائی۔خودایم۔این۔اے اوروزیراعظم کے خصوصی ایلچی بنے۔گورنرکے لئے پشتون قومی رہنماؤں کی بجائے 80 سالہ بھائی کو منتخب کیا۔ چچازاد بھائی مجیدخان کوایم۔پی۔اے،بیوی کی بھابھی سپوزمئی کوایم۔پی۔اے، سالی نسیمہ کوایم۔این۔اے سمیت تمام قریبی رشتہ داروں کو اعلیٰ ملازمت دی اور بلوچستان حکومت میں ،،ففٹی پرسنٹ،،وزارت،کرپشن اورکمیشن۔واہ خان صاحب واہ، آپ نے عظیم پشتون قوم اورشہداءکے ارمانوں کے ساتھ جوکھلواڑکیاتاریخ آپکوکبھی معاف نہیں کریگی۔عظیم پشتون قوم نے گزشتہ الیکشن میں آپ کی وجہ سے آپکی پارٹی کوبری طرح دھتکاردی۔ صرف نصراللہ زیرے اپنی زاتی کارکردگی کی وجہ سے کامیاب ہوا۔ خان صاحب ایک زیرک سیاستدان کی حیثیت سے آپ حالات کی نزاکت کو سمجھتےاوراخلاقی طور پرچیئرمین شپ سے استعفی دیتے۔
مگرآپ نے عظیم قوم کی امانت پارٹی کوذاتی جاگیربنایا۔ ذاتی انا، بغض، لالچ اور قبائلی خان بن کرپشتونوں کے ارمانوں کا گلہ گھونٹ دیا۔ تب آپکی پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے چند دن پہلے آپکی پچاس سالہ ،،شہنشائیت،، کے خلاف اعلان حق کیااور آپکے آمرانہ رویے کے خلاف اورپارٹی کوبچانے اورعظیم شہداء کے ارمانوں کو پورا کرنے کے لئے میدان عمل میں اترے۔ مگرآپ کی،،شہنشائیت،،اورفخروغرورنے ایک مرتبہ پھر سراٹھایااورنصراللہ زیرے سمیت کئی نظریاتی رہنماؤں کوآپ نے ایک جرنیل کی طرح پارٹی سے نکالا۔ خان صاحب اب نظریاتی رہنمااورکارکن آپکی پچاس سالہ شہنشائیت کے خلاف میدان عمل میں آئے ہیں۔ جلدہی آپکوپارٹی سے فارغ کیاجائیگا۔ آپکوبخوبی اس کا اندازہ ہے۔لہذاآپ بھی اپنی آمریت اورشہنشائیت کوبچانے کی خاطر ایک مرتبہ بھی بلوچستان کی تقسیم،بولان تاچترال کاگھساپٹانعرہ لگاکربرادراقوام کودست وگریباں کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔مگرخان صاحب، کان کھول کر سنیں، وہ وقت گیا۔اب عظیم پشتون اور بلوچ قوم آپکی سازش کوبری طرح ناکام بنائیں گے۔
*ہم بھائی تھے اور بھائی رہینگے۔*
آپ نے وہ تاریخی مناظر بھی دیکھے جب عظیم پشتون رہنمالالاعثمان شہید کی میت کابھی بلوچوں نے شاندار استقبال کیا۔ میت کی گاڑی کو بوسہ دیتے رہے اورعظیم رہنماکے لئے روتے رہے۔
خان صاحب، ہم بابابزنجو،باباباچا خان، نواب بگٹی،باباولی خان،سردارعطاءاللہ خان،نواب مری، ہاشم خان غلزئی، ملک عبدالعلی کاکڑ،شہیدجیلانی خان اوردیگررہنماوں کی اولاداورمقلدہیں۔
اس ملک اورریاست میں ہرقوم اپنی سرزمین کی وارث ہے۔خان صاحب اگر کوئی غیر قوم پشتون وطن اورچترال کی طرف غلط نگاہ ڈالے توہم اسکی آنکھیں پھوڑدینگے۔اگرکوئی بھی شخص بلوچستان اور بلوچوں کی عظیم تاریخ کی امین اور ہزاروں سالہ سرزمین بولان کی طرف غلط نگاہ ڈالے تومجھے اپنے والد کے الفاظ یادہیں کہ ہم ان آنکھوں کوپھوڑدینگے۔
ویسے خان صاحب پشتون سرزمین بشمول چترال کے لوگ اپنی سرزمین کی خود حفاظت کرینگے۔
بلوچستان اوربولان کے غیور لوگ اپنی سرزمین کی وارث اورخودحفاظت کرناجانتے ہیں۔مگر آپکی پچاس سالہ شہنشاہیت جلدڈوبنے والی ہےاب آپ کے نفرت، بغض،دشمنی، برادرکشی،اناپرستی،خاندانی آمریت کےسڑےہوئےبدبودار،،چورن،،سے لوگوں کو،،الٹی،، آتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں