لاپتہ افراد کے موجودہ کمیشن پر تنقیدی جائزہ
تحریر: بہادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان جو کئی دہائیوں سے ایک مقتل گاہ بن چُکا ہے، جہاں ریاست کی ایما پر آئے روز قتل و غارت گری، بلوچوں کی جبری گمشدگیاں اور جعلی مقابلے ایک مکمل داستان بن چکے ہیں، جس میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ یا تو قتل کر دیے گئے ہیں یا تو زندانوں میں اذیت ناک سزاوں کا سامنا کررہے ہیں جہاں انسانی تاریخ میں انسانی لاشوں پر کھیلنا، ویران جنگلوں میں پھینکنا ایک انسانی المیہ جنم بن چکا ہے، جہاں پاکستانی اسپونسرڈ اسپتالوں کے اندر بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں پر بطور ٹیسٹ کیس پنجابی میڈیکل طالب علموں کے لئے ایک ذرائع کے طور پر استعمال کرنا ایک عام بات بن چکی ہے، جو پوری انسانیت کے لئے ایک ناقابل فراموش عمل ہے۔
پاکستانی ریاست شروع سے بلوچستان میں اپنے قبضہ کو دوام بخشنے کے لئے نئی نئی ہتھکنڈے شروع کرتا ہے جس کا مقصد ہی یہی ہے وہ اپنے قبضہ کو برقرار رکھنے انسانوں کے دلوں میں اپنے خوف کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ اور پوری بلوچستان کے وسائل پر ریاستی تسلط یوں ہی قائم ہو، اور انکا لوٹ مار آج تک زور و شور سے جاری ہے۔
لاپتہ افراد ہو یا بلوچ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ جو بلوچستان میں ایک نئی بات نہیں ہے، ستر کی دہائی سے لے کر آج تک وہ اسی طرح جاری ہے بلوچ رہنما سردار عطاء اللہ مینگل کا اپنا بیٹا جو اسد اللہ مینگل، جو ذولفقار علی بھٹو کے دور میں جبری گمشدگی کا شکار ہوا آج تک اُسکا سراغ نہ مل سکا۔ جس کا اعتراف ذوالفقار بھٹو نے اپنے کتاب میں بھی کی ہے کہ اس کو دوران حراست شہید کیا گیا اور پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے بھی ایک انٹرویو کے دوران بھی اسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کو دوران حراست شہید کیا گیا مگر لاش یا قبر کا آج تک پتہ چل نہ سکا۔
2006 کی بات ہے جب نواب اکبر خان کو شہید کیا گیا تو بلوچستان کے اندر بلوچوں کے اوپر ایک خطرناک آپریشن اور جبری گمشدگیوں کا ایک نہ رکنے والا نیا سلسلہ شروع ہوگیا، جہاں مارو پھینک دو والی پالیسی ریاست نے تیزی کے ساتھ شروع کیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ ادیب،کارکن اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جہاں ہزاروں کی تعداد میں یا تو بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور جنگلوں میں پھینک دی گئی ہیں یا انہیں زندانوں میں مقید بنایا گیا جو آج تک جاری ہیں۔
ایک بار پھر بلوچستان میں ریاستی ادارے چاہے عدلیہ ہو یا پارلیمانی سیاستدان جنہوں نے بجاہےظالم آقاوں کا احتساب کرانے جو بلوچ جبری گمشدگیوں میں پیش پیش رہے ہیں انہیں تحفظ دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے کیونکہ ریاستی ادارے وہ نام نہاد ادارے ہیں جنہیں ریاست تاش کی طرح استعمال کرتا ہے جہاں ضرورت ہو، وہاں برائے نام کمیشنوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنے حُکم کے ہکوں کو سامنے لائے- اسی طرح حالیہ ایک اور جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جسکا سربراہ بی این پی کے سردار اختر مینگل کو نامزد کیا گیا ہے۔ بلوچ جبری گمشدگیوں اور ہراسگی کے خلاف رپورٹ کو منطقی انجام تک پہچانے کے لئے لیکن ایسے نام نہاد رپورٹ کے پیچھے ایک ریاستی سوفٹ پاور جنم لیتی ہے تاکہ ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں-
اسی اثناء میں، سردار اختر مینگل بطور چیرمین مقرر کرکے ہروقت بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ ایشو کے اوپر ڈھنڈورا پیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا ہے جہاں بلوچ کاز کو وہی پنجاپی پارلیمنٹ کے اندر اپنی جزباتی تقریروں سے سناتے ہیں وہاں نہ انسانی بالادستی ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی انسانی قوانین کی پاسداری، جس ریاستی پارلیمنٹ نے بلوچوں،پشتونوں اور سندھیوں کو سوائے نفرت، حقیر ،وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور جبری گمشدگیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے تو اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اختر مینگل سوائے گمشدگی کا شکار بلوچ لاپتہ افراد کے ماوُں کے تکلیفیوں کو مزید بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں کریگا، یہ وہی بلوچ مائیں جو کئی سالوں سے اپنے لخت جگر بیٹوں کے لئے کبھی دوہزار کلومیٹر مارچ کا پیدل سفر کرتے ہیں یا تو کبھی کوئٹہ کی یخ بستہ سردی میں احتجاجی کیمپ میں سراپا احتجاج ہوتی ہیں کہ کب ہمارے پیارے گھروں کو واپس آجائیں لیکن یہ بات صرف اُن ماوُں کے لیے ایک خُواب بن چکا ہے جو شاید ہی کبھی پورا ہو۔
2012 میں سردار اختر مینگل پاکستان آئے اور پاکستانی اداروں کے سامنے چھ نکات رکھ دیئے جس میں ایک نکتہ لاپتہ افراد کے گھمبیر مسائل کا حل شامل تھا لیکن لاپتہ افراد کا مسئلہ اپنی جگہ باقی پانچ نکات کا فائل بھی اسمبلی کے مین فلور سے ہی چوری ہوگیا تو یہ بات ثابت ہوگیا کہ یہ ریاست بلوچ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو کسطرح دبانا چاہتا ہے اور یہ ریاست مظلوم بلوچ قوم پر جان بوجھ کر کسطرح اپنی تسلط جمانا چاہتا ہے اور اپنے پارلیمانی مُہروں کے ذریعے نام نہاد جوڈیشل کمیشن، چھ نکاتی ایجنڈوں کے نام پر بلوچ قوم کے درمیان جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے لیکن بلوچ قوم اس ریاستی پارلیمنٹ اور اسکے بنائے گئے کمیشنوں کو سرے سے مُسترد کرچکا ہے اور بلوچ قوم کا یقین سرے سے ان نام نہاد اداروں کے اوپر اُٹھ چکا ہے۔
اس کے علاوہ،حالیہ دنوں ایک اور ریاستی برائے نام جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جسکا بنیادی مقصد پاکستان کے جامعات میں بلوچ طلبہ کی پروفائیلنگ اور ہراسگی کا نوٹس لینا تھا اور بعد میں سپریم کورٹ کی طرف سے ایک نئی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جسکا سربراہ سردار اختر مینگل کو چُنا گیا لیکن یہ نام نہاد کمیشن صرف کاغذی کاروائیوں پر مشتمل ہے باقی عملی کام نہ پہلے تھا اور نہ ہی آگے ہوگا کیونکہ یہ ریاستی سوفٹ پاور ہوتے ہیں تاکہ ریاستی اداروں پر بلوچوں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ ان سرکاری کمیشنوں کے بعد بھی لاپتہ افراد اور بلوچ طلبہ کی ہراسگی کا مسلہ دن بہ دن زیادہ ہوتا چلا جارہا ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں بلوچوں کو ماورائے عدالت جبری گمشدگی کا شکار بنایا جاتا ہے جو ان نام نہاد کمیشنوں اور ان کے سربراہان کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جسکی وجہ سے مزید بلوچ طلبہ نفسیاتی طور پر انزاہیٹی اور ڈیپریشن کا شکار ہوتے جارہے ہیں کہ میں بحیثیت بلوچ لاپتہ نہ ہوجاوُں۔
سردار اختر مینگل جو اس موجودہ برائے نام لاپتہ افراد کے کمیٹی کا چیرمین ہے جس نے بلوچ مسنگ پرسن کے کوئٹہ کیمپ کا دورہ کیا تھا، یہاں کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں یہ کیمشن کیا سمی دین کے والد ڈاکٹر دین جان جو کئی سالوں سے پاکستانی ٹارچر سلوں میں ازیتیں سہہ رہا ہے کیا یہ کمیٹی سردار اختر مینگل کی نگرانی میں بنائی گئی ہے اس کو بازیاب کراپائیگی؟
کیا یہ کمیشن کئی سالوں سے زندانوں میں قید زاکر مجید کو بازیاب کراکر اُسکی ماں کو واپس لوٹا سکتی ہے؟
کیا یہ کمیشن اُن ہزاروں گمشدگیوں کا شکار اُن تمام بلوچوں کو جنہیں ماورائے قانون جبراٙٙ لاپتہ کیا گیا تھا کیا انہیں بازیاب کراسکتا ہے؟
کیا اس کمیشن میں اتنی ہمت اور طاقت ہے جو لوگ لاپتہ ہوئے ہیں اور خوش قسمتی سے پھر سالوں بعد بازیاب ہوئے ہیں ان کو لاپتہ کرنے کو سزا دے پائیگی؟
کیا جبری گمشدگیوں کے شکار ان ریاستی درندوں کو سزا دی جاسکتی ہے جن کی نگرانی میں یہ نسل کشی جاری ہے؟ کیا توتک واقعہ یا نشتر اسپتال ملتان جیسے واقعات میں ملوث افراد کو سزا دے پائیگی؟
اگر یہ کمیشن ان تمام واقعات میں ملوث افراد کو سزا دے پائیگی تو بات بنتا، مگر اس بات سے ہر ذی شعور انسان واقفیت رکھتا ہے تاریخ میں کبھی یہ ہوا بھی نہیں ہے کہ کسی ریا نے اپنے آقا کو سزا دی ہو۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس ریاستی مشینری نے بلوچ قوم کو سوائے لوٹ کھسوٹ، دوغلہ پالیسی اور یلغار جیسے حربوں کا استعمال کرنے کے سوائے ایک زرہ برابر بھی فائدہ نہیں دیا ہے، جو اب تک بلوچ قوم اس ریاستی یلغار کا سامنا کررہے ہیں کیونکہ یہاں رشتہ صرف و صرف ظالم اور مظلوم کا ہے اور کچھ نہیں باقی یہ تمام نام نہاد اور جعلی کمیشنوں کا برائے نام کے سوا کوئی آوٹ پُٹ نہیں آئیگا کیونکہ وہی پاکستانی ریاست جو بلوچ قوم پر قابض ہے وہ کیسے اپنے بنائی ہوئی عدالت، مقننہ کے اندر اپنا احتساب کرائیگی یہ سوچنے والی بات ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں