غیر آئینی ریکوڈک معاہدے سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگی – این ڈی پی

261

ریکوڈک معاہدے کے متعلق  نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ ایڈووکیٹ و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میںپریس کانفرنس کرتے ہوئے اس کو غیر آئینی و بلوچ قوم کے مرضی کیخلاف قرار دیا۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ مورخہ 21 مارچ 2022ء کے تمام پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں یہ خبر عوام الناس تکپہنچائی گئی کہ اس وقت کے وفاقی وصوبائی (بلو چستان) حکومتوں نے مل کر ایک بیرون ملک کمپنیبیرک گولڈاوراینٹاگوفیسٹاکے ساتھ ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے کانکنی کے لئے معاہدے کئے ہیں، جس میں 50فیصد حصہ وفاقی اورصوبائی(بلو چستان)حکومتوں کے درمیان 25:25 کے تناسب سے تقسیم ہوگی اورباقی ماندہ 50فیصدحصہ کمپنی کا ہوگی۔ مزید یہ کہبلوچستان کو ملنے والی 25فیصدحصہ ایک وفا قی کمپنی کو دئیے جائیں گے، جس کی مکمل ملکیت حکومت بلوچستان کے پاس ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بیرک گولڈ اور اینٹا گوفیسٹا وہی کمپنیاں ہیں، جنہوں نےٹیتھیان کاپر کمپنی” (TCC) کو 2000ء میں BHP منرلکمپنی سے خریداتھا اورBHPمنرل کمپنی سے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 1993ء میں  (CHEJVA (  چاغی، ہلز،ایکسپلوریشن، جوائنٹ، وینچر، ایگریمنٹ  کے عنوان سے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا تاکہ ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے کانکنیممکن بنائی جاسکے اور جب 2000ء میں TCC نے ریکوڈک پرقبضہ حاصل کیا، تو اسے ایک نئے معاہدے کے ساتھ جوڑ دیا گیا، جسے”Novation Agreement” کے نام سے منسو ب کیا گیا جو بعد میں حکومت بلوچستان اور TCCکے درمیان طے پا یاگیا تھا۔  

انہوں نے مزید کہا کہ کمپنی اور حکومت کے درمیان معاملات اس وقت خراب ہونا شروع ہوگئے تھے جب TCCنے حکومت کو ایک ڈرافٹ2007ء میں پیش کی جس میں کمپنی نے مطالبہ کیا تھاکہ وہ حکومت کو صرف دوفیصد رائلٹی دیں گے، جب کہ بین الاقوامی سطحمیں رائلٹی 06فیصد مختص ہے، دوسرا یہ کہ وہ زیرزمین ریکوڈک سے لے کر گوادر تک ایک پائپ لائن بچھائیں گے جو ریکوڈک سےسونے اور تانبے کا خام پتھر(Raw) اسی پائپ لائن کے ذریعے پانی کے ذریعے ریکوڈک سے گوادر تک بھیجیں گے اورمزید ان کےصفائی(Processing) کیلئے اسے چلی  (CHILLIE)ببھیجا جائے گا جہاں اسے وہاں پر موجود کمپنی میں  Refine کیا جائے گا۔اس سلسلے میں اس وقت کے حکومت (بلو چستان) اور کمپنی(TCC) میں کافی اختلاف پیدا ہوا تھا تو 24دسمبر 2009ء کو نواباسلم رئیسانی کے حکومت نے ٹیتھان کاپر کمپنی کے ساتھ ہوئے تمام معاہدوں کو Null & Void قرار دے کر  منسوخ کردیا تھا۔

رہنماؤں نے مزید کہا کہ اس سارے صورتحال میں سب سے دلچسپ موڑ یہاں آتا ہے جب 2013ء میں اس وقت کے سپریم کورٹ آفپاکستان کے 03رکنی بینچ جس کی سربراہی سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کررہے تھے جبکہ جسٹس (ر) گلزاراحمد اورجسٹس (ر) عظمت سعید اس بینچ کا حصہ تھے۔ اس بینچ نے باقاعدہ ایک تفصیلی اور جامعہ انداز میں ریکوڈک معاہدے کو منسوخکردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے 2013ء کے حکم نامے (Judgement) میں واضح طورپر لکھا گیا ہے کہ TCCسے کئے گئے تمام معاہداتآئین پاکستان 1973ء سمیت Minerals Development Act 1948، Balochistan Mining Concession Rules1970

 Contract Act اور Registration Act کے قوانین کے منافی ہیں، اور مزید اس حکم نامے میں کہا گیا کہ کمپنی (TCC) کے ساتھہوئے تمام معاہدات ریاست کے اندر عوام کے اقتدار اعلیٰ کو سبوتاژ کرکے کمپنی (TCC)کے بالادستی کوتر جیح دی گئی ہے۔لہٰذاسپریم کورٹ آف پاکستان نے 2013ء میں ماضی کے کئے گئے تمام ریکوڈک معاہدات کو Null & Void قرار دے کر اسے منسوخکردیاتھا۔

انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسی دوران ٹیتھان کاپر کمپنی نےWorld Bank کے ما تحت ادارہ  International Center for Settlement Disputes (ICSD) میں ریاست کے خلاف مقدمہ کیا تھا، اور بلاآخر ICSD نے 06 بلین ڈالر کاجرمانہحکومت پاکستان پر عائد کردیا، جو ابھی تک کمپنی کو ادا نہیں کئے گئے ہیں۔اس سارے معاملے میں پاکستان کی معیشتاپنےInstitutions  Exclusiveمیں موجود سرکاری اشرافیہ کے غلط پالیسیوں کے باعث بدتر ہوتی جارہی ہے اور بجائے کہ  معیشت کے نظام کو صاف شفاف بنایا جاتا، اس کے برعکس خفیہ معاہدوں کے ذریعے بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ ساز باز کرکے عوامبلخصو ص بلوچستان کو لوٹا جارہاہے۔ ملکی اداروں کی نجکاری (Privitize) کرکے سرکاری اشرافیہ نے پہلے ہی عوام الناس کوتعلیم وصحت جیسے بنیادی ضرورتوں سے محروم تو کردیا تھا اب مزید ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جس سے اُس تاریخ کو دہرایاجا رہا ہے جس طرح آج سے دو صدی قبل برصغیرسمیت بلوچستان East-India-Company کے لپیٹ میں چلاگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس موجودہ معاہدے (2022) کے تصدیق شدہ نقولات حاصل کرنے کے لئے ہمارے جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نےبلوچستان  وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ جاکر تحریری درخواست دی، جسے یہ کہہ کر ٹھکرایا دیاگیا کہ یہ ریکوڈک معاہدہ خفیہ ہے جسےہم Public نہیں کرسکتے۔ وہاں سے مایوس ہوکر مجبوراً ہم نے ہائی کورٹ آف بلوچستان میں آئینی پٹیشن زیر دفعہ ”199نعمت اللہشاہ بنام حکومت بلوچستانکے عنوان سے CP # 441/2022 داخل کیا اور یہ استدعا کیا کہ ہمیں ریکورڈک معاہدے کے تصدیقشدہ نقولات مہیا کئے جائیں۔

اس دوران صدر پاکستان کی جانب سے ایک صدارتی ریفرنس بھی سپریم کورٹ میں ریکوڈک معاہدے کے بابت داخل کی گئی، جسمیں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعا کی گئی ہے کہ ریکورڈک معاہدے کے معاملات کو 15دسمبر2022 سے پہلے پہلےسپریم کورٹ کے زیر نگرانی میں معاہدے کے مندرجات ترتیب دیے جائیں تاکہبیرک گولڈ اور انٹاگوفیسٹاکے ساتھ معاملات کوسرکاری سطح  پر سمت دی جاسکے وگرنہ دوسری صورت میں پاکستان کو 06بلین ڈالر کمپنی (TCC) کو ادا کرنے پڑیں گے اور یہبھی ممکن ہوسکتاہے کہ بیرون ملک پاکستان کے اثاثوں کو منجمد کیا جائے۔ اسی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان بھی تیزی سےاس صدارتی ریفرنس کے کاررائیوں کو روزانہ کی بنیاد پر چلارہے ہیں۔ تاکہ 15دسمبر سے پہلے ریکوڈک معاہدے کو حتمی بنایاجاسکے۔

رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جو معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یہاں کے عوام آج بھیبدترین غربت اور کسمپرسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔ کرومائیٹ، کوئلہ، گیس، سونا اور کاپر جیسے معدنیات کے کانکنی نے جہاں بینالاقوامی کمپنیوں سمیت پنجاب کے صنعتوں (Industrilization) کو بے پناہ فائدے پہنچائے ہیں وہیں بلوچستان کے عوام کو بھوک،افلاس، لاشوں کے سوا اور کچھ نہیں ملاہے۔ بدقسمتی سے آج بھی بلوچستان کی عوام اکیسویں صدی کے دور میں اٹھارویں صدیکی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ جب بلوچستان کی عوام اپنے بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہیں تو ماورائے عدالتی قتل، جبریگمشدگیوں، جعلی ایف آئی آر اور جیل و زندانوں کے اذیت سے گزاردیئے جاتے ہیں۔ 1948ء سے  اب تک بلوچستان میں 04 انسرجنسیاں ہوچکی ہیں جبکہ پچھلے دو دہائیوں سے لگاتار پانچویں انسر جنسی سے گزررہی ہے۔ اس دوران، جہاں کئی قیمتیجانوں کا ضیاع ہوچکاہے، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شہید کئے جاچکے ہیں یا پھر جبری گمشدگیوں کے شکار ہیں۔ مزید یہ کہ اسجنگی صورتحال کے وجہ سے لاکھوں بلوچ یا بیرون ملک چلے گئے ہیں یا پھر Internal Displaced Persons (IDPs) کے فہرستمیں ہیں۔

بیروزگاری اورمہنگائی نے تو جیسے پورے خطے کے عوام کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے۔ مختصراً یہی کہوں گا کہ اس لوٹ مار اورجبروتشدد کے رویوں نے واضح کردیا ہے کہ بلوچستان کی حیثیت ایک نوآبادیات (Colony) سے مختلف نہیں ہے، جس کے وجہ سےبلوچستان کے عوام اپنے سیاسی ومعاشی آزادی سے مکمل محروم کردیئے گئے ہیں۔ شہید نواب اکبرخان بگٹی، سردار خیربخش خانمری اور سردار عطاء اللہ مینگل کی سیاسی زندگیاں انہی ظلم و زیادتیوں کے خلاف تھے اور ہم بھی اپنے ان سیاسی اکابرین کےجدوجہد کو مشعل راہ سمجھتے ہوئے اپنی سیاسی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی صورت سرکاری اشرافیہ کو اجازتنہیں دیں گے کہ وہ ریکوڈک سمیت کسی بھی پراجیکٹ کو بلوچ قوم کے منشٰی کے بغیرکرسکے، اور اگر بلوچستان کے ساحل و وسائلکو خفیہ معاہدوں کے ذریعے عملدرآمد کرایا جائے گا تو بین الاقوامی، ملکی، شہری و اخلاقی سطح پر بلوچ قوم کا یہ حق ہوگا کہ وہاپنے دفاع اور اپنے آزادی کے حصول کے لئے ہرسطح پر آواز بلند کرے تاکہ بلوچستان میں نوآبادیاتی پالیسیوں کا خاتمہ ممکن بنایاجاسکے۔

انہوں نے کہا کہ آخر میں آپ صحافی حضرات کے توسط سے ہم  یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم آف پاکستان نے  پرانا نظریہ ضرورتکو ڈھال بنا کر ریکوڈک معائدے کو آئین و قانون کے تحت کے قرار دیا، جو کہ ہم سمجھتے ہیں سپریم کورٹ اپنی سابقہ فیصلے کیخلاف ورزی ہے، اس ریاست کے اندر تمام پارلیمانی اداروں کی حیثیت ایک ربڑ اسٹیمپ کی ہے، عوام کو امید کی ایک کرن عدلیہ سےہے، اس فیصلے کے بعد عام عوام بھی عدلیہ سے بدزن ہونگے۔  ایک دفعہ پھر بیرونی قرضوں سے جان چھڑانے کیلئے  بلوچستان کےوسائل کا سودا لگایا گیا اور  بلوچ قوم کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کا جو ردعمل ہوگا جو کہ اس خطے کے اندر مزید عدم استحکام پیداکرے گا، جہاں سے بلوچ بحیثیت قوم اُس کے لیے واپس آنا ناممکن ہوگا۔