شہید جنرل استاد اسلم، سندھو دیش تحریک کے مضبوط ساتھی ۔ اصغر شاہ

877

شہید جنرل استاد اسلم، سندھو دیش تحریک کے مضبوط ساتھی

تحریر: اصغر شاہ 

دی بلوچستان پوسٹ

جبری الحاق میں قید کئے گئے غلام وطنوں میں انقلابی رہنماء تاریخ ساز کردار ادا کرتے ہیں۔ فکر و فہم، ادراک اور انقلابی عمل کے ذریعے اپنی قوموں کے اندر نئے جوش و جذبے، حوصلہ و ہمت، بہادری و قربانی اور مسلسل جدوجہد کا روح پھونک کر قوموں کو آزادی و خوشحالی سے ہمکنار کرتے ہیں اور شاندار و باوقار طریقے سے جینے اور مرنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں-

استاد اسلم بلوچ بھی ایسے ہی انقلابی رہنماوں میں سے ایک رہنماء تھے- ایک پکا پختہ دیش بھگت ، بلوچ روایات کا امین ،جنگی علوم و حکمت عملیوں کا ماہر ،سچا، ایماندار، باکردار، وعدہ سخن،خودار اور پاکستانی پنجابی رياست کے قید میں بند مظلوم و محکوم اقوام بالخصوص سندھی قوم ،قومی تحریک اور مزاحمتی جدوجہد کا عملی طور پر دوست و ساتھی، مددگار و طرفدار۔

استاد اسلم بلوچ کو جو دوست جانتے ہیں، ملے ہیں یا اس سے سیکھے ہیں یا شہادت کے آخری لمحات تک ساتھ رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح استاد اسلم بلوچ ، ڈاکٹر اللہ نذر ،بشیر زیب (بی ایل اے کا موجودہ کمانڈر انچیف) ،استاد مرید و دیگر مخلص و محنتی دوستوں نے کیسے اور کس طریقے سے بلوچ قومی تحریک اور مزاحمت کو مخصوص دائروں،علاقوں اور سرداروں سے نکال کر سارے بلوچستان کے وسیع و عریض علاقوں اور پہاڑوں تک پہنچادیا ہے اور وطن کے لئے اعلیٰ درجے کی قربانی دینے والے اور اپنی جان نچھاور کرنے والے فدائین کی بڑی کھیپ تيار کرکے بلوچ وطن اور قوم کا کیس عالمی دنیا و میڈیا تک پہنچایا ہے۔

سندھ اور بلوچستان اپنی جیو پالیٹیکل پوزیشن ، جائے وقوع،طویل ساحلی پٹی اور لاتعداد معدنی وسائل کی وجہ سے ہمیشہ دنیا کے ظالم و جابر ،وحشی و قبضہ گیر اور توسیع پسند قوموں کی کشش و حریص نظروں کا مرکز رہتے آئے ہیں۔ انگریزوں کا ایک صدی سے زیادہ قبضہ ہو یا موجودہ وقت میں پاکستانی پنجابی سامراج کا قبضہ ہو اسی سامراجی قبضہ گیریت و فاشزم کا تسلسل ہے۔جس سامراجی تسلسل و قبضہ گیریت کا اب چائنا بھی بڑے پیمانے پر حصہ بن چکا ہےجو اس پورے خطے کے اندر اپنے سیاسی ،معاشی و عسکری مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

چائنا ہم دونوں سندھی و بلوچ اقوام کے قومی دشمن پنجاب سامراج سے مل کر سی پیک منصوبے کے نام پر سندھ و بلوچ ساحل و سمندر ،توانائی کے ذرائع ،جزائر ،انفراسٹرکچر، آمدورفت یا تجارتی راستے اور ذراعت کے شعبوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

وطن اور قومیں جب قومی غلامی کی ایسی بدترين اور کھٹن صورتحال میں پھنس جاتی ہیں تو جہاں مضبوط قومی فکر ،تنظيم اور لیڈرشپ کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مضبوط ارادوں ،فیصلوں اور مزاحمتی عمل کی بھی اشد ضرورت پڑتی ہے۔استاد اسلم بلوچ نے وہ سارے انقلابی اصول ،صلاحتیں ،خوبیاں ،توانائیاں اور خطرات کو خود اور تنظیم پر نافذ کرکے مضبوطی اور پختہ ارادے کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بلوچ قومی تحریک مقداری و معیاری حوالے سے علاقائی و عالمی سطح پر تیزی کے ساتھ اپنی حیثیت و جگہ بنانے میں کامیاب ہورہی ہے۔

غلام قوموں کے رہبر و رہنماء اور جنگی جہد کار ایسے ہوتے ہیں جو اپنے قوموں کو غلامی کی بدبودار اور غلیظ دلدل سے نکال کر آزادی و کامیابی کی افق تک پہنچاتے ہیں۔ جب دو ہزار سترہ میں بی ایل اے جیسی مادر مزاحمتی تنظيم کے اندر سياسی و تنظیمی معاملات اور مسائل پر اختلافات پیدا ہوگئے اور تنظيم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ایک حصے کی سربراہی نواب خیر بخش مری کا فرزند حیربیار مری اور دوسرے دوست کررہے تھے جبکہ دوسرے حصے کی سربراہی استاد اسلم بلوچ،بشیر زیب بلوچ اور دوسرے دوست کررہے تھے-2017 سے 2022 تک کے پانچ سال کے قلیل عرصے میں تنظيم کو استحکام دینا،چلانا ،سنبھالنا اور پاکستان کی معاشی شہ رگ اور چائنیز پر مہلک فدائی حملے کرنا استاد اسلم بلوچ اور بشیر زیب بلوچ جیسے باصلاحیت ،کمیٹڈ اور مزاحمتی کمانڈروں کی جنگی مہارت اور صلاحیت کا ہی کمال ہے۔

جس اعلی صلاحیت اور قربانی کا ایک لازوال مثال استاد اسلم بلوچ کا بیس سالہ نوجوان بیٹا شہید ریحان بلوچ بھی ہے، جس کو ایک والد کی حیثیت سے استاد اسلم بلوچ نے اور ایک بہادر ماں کی حیثیت سے اماں یاسمین بلوچ نے آزاد بلوچستان کا بیرک لپیٹ کر بارود سے بھری ہوئی گاڑی دے کر 11 اگست 2018 کو ضلع چاغی کے شہر دالبندین میں چائنیز انجینئرز کی بس پر فدائی حملے کے لئے روانہ کیا تھا۔اپنے وطن کی آزادی کے لئے اپنے نوجوان بیٹے کو خطرناک بارود دے کر فدائی کے لئے روانہ کرنا فیصلے ،ارادے اور قربانی کا اعلیٰ ترین مثال ہے جس کی نظیر دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ جس تسلسل ، ارادے ، قربانی اور فیصلے کو استاد اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد بھی اسکی تنظيم اور ساتھی پوری شدت اور جدت کے ساتھ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

استاد اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد بشیر زیب بلوچ کی زیر کمان موجودہ قیادت کا پاکستانی پنجابی رياست کی قومی غلامی میں قید دوسرے مظلوم و محکوم قوموں بالخصوص سندھی قوم ،قومی تحریک و مزاحمت کے متعلق خیالات واضح ،میچور اور مددگار رہے ہیں۔ جس وقت استاد اسلم بلوچ خود موجود تھے تو سندھ کی مزاحمتی تنظیموں اور دوستوں کی قدم قدم پر رہنمائی کا کردار ادا کرتے رہتے تھے۔ جس کا برملا اظہار وہ اپنے دوستوں ،اپنی تحریروں ،تقریروں اور ویڈیوز میں کرتے تھے۔

استاد اسلم بلوچ کے ساتھ ویسے تو سندھ کی قومی آزادی ،مزاحمت اور زندگی کے بہت سارے واقعات ،باتیں ، حادثات ،خطرات عملی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔لیکن یہاں میں سندھ کی نئی نسل کی آگاہی کے لئے ایک مثال رکھنا چاہتا ہو جس سے آپ بخوبی واقف ہوجائیں گے کہ استاد اسلم بلوچ کے سندھ اور مزاحمت کے متعلق کیسے فکر و خیالات تھے۔

یہ غالباً دو ہزار کے شروعاتی سال تھے، جب ہمارا پہلی مرتبہ بلوچ مزاحمتی تنظيم بی ایل اے سے براہ راست رابطہ ہورہا تھا۔ میں اور میرا ایک دوست ایک ساتھ کسی جگہ پر پہنچے جہاں پر استاد اسلم بلوچ ہم سے ملاقات کے لئے پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔ روایتی دعا و سلام اور چائے پانی کے بعد میرے ساتھ آنے والا دوست یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ مزاحمتی ميدان آپ دونوں کا ہے اس لئے آپ دونوں ون ٹو ون تفصیلی بات چیت کریں میں آپ کا باہر انتظار کرتا ہوں۔اس دوست کے باہر جانے کے بعد میں نے استاد اسلم بلوچ کے سامنے سندھ، قومی تحریک اور مزاحمت متعلق تفصیلی بات چیت رکھی۔ جس کے جواب میں استاد اسلم بلوچ نے کہا کہ آپ اور ہم دونوں برادر قومیں ہیں۔ دونوں قوموں کا صدیوں سے تاریخی اور ثقافتی رشتے اور تعلق رہا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ آپ اور ہمارا قومی آزادی کا مقصد اور قومی دشمن (پنجاب)بھی مشترکہ ہے۔اس لئے آپکی ہر ممکنہ سیاسی، سفارتی اور خاص طور پر مزاحمت کے حوالے سے مدد و تعاون کریں گے۔ ایسے ہی استاد اسلم بلوچ سے ہونے والی شروعاتی ملاقات اور بات چیت کے بعد سندھ اور بلوچستان کی قومی تحریک اور مزاحمت کے آپس میں مضبوط تعلقات ، واسطہ اور بنياد پیدا ہوئے۔ جو تعلقات اور بنياد استاد اسلم بلوچ سے ہونے والی ملاقات سے لے کر ان کی شہادت تک اور اسکے بعد آنے والی دوسری قیادت کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

آج اس عظیم آزادی پسند رہنماء ،جنگی ماہر اور استاد محترم کی شہادت کا دن ہے۔ جس موقع پر ہم سندھی قوم کی طرف سے انہیں قومی سلام پیش کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ استاد اسلم کو بہترین خراج تحسین پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ استاد اسلم بلوچ کی بلوچستان اور سندھ کی آزادی کے لئے انتھک ،مسلسل اور طویل مزاحمتی جدوجہد اور قربانیوں کو رہنماء اصول بنا کر آگے بڑھیں اور اپنی اپنی قومی اور مزاحمتی جدوجہد کو تیز کریں تاکہ اپنی آزادی کی منزل کو حاصل کیا جاسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں