بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ پریس کلب کے سامنے آج 4899 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر این ڈی پی کے کنوینئر شاہ زیب بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہر گزرتے دن بلوچستان میں حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں، ریاست طاقت سے اپنا خوف برقرار رکھنے کے لئے نوجوانوں کو لاپتہ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ احتجاجی کیمپ ایک تاریخی سیاسی احتجاج ہے اس پرامن سیاسی احتجاج نے بلوچ قومی انقلابی جمہوری سیاست پر چار چاند لگا کر استعماری قوتوں اور ریاستی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ان پرخطر حالات میں جہاں ہر طرف بے یقینی بے چینی اور خوف کا سماں ہو، بلوچ کی جان مال اور عزت و غیرت محفوض نہ ہو، ایجنسیوں کی غنڈہ گردی عروج پر ہو، قاتل ریاستی دستے دندھناتے پر رہے ہو تو ہر قسم کے خطرات دھمکیوں اور جارحانہ تماقت کو خاطر میں نہ لا کر ہر بلوچ فرزند کی مسخ شدہ لاش اور ہر جبری لاپتہ بلوچ لو اپنا فرزند تصور کر کے تمام ممکنہ مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے اپنی زندگی کو ان کے لئے وقف کرنے کا عزم لے کر کیا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ بلوچ ایکٹوسٹ راشد حسین بلوچ کی خلیجی ملک متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے چار سال پورے ہورہے ہیں ، انہیں غیر قانونی پاکستان کے حوالہ کیا گیا، لیکن تاحال انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 26 دسمبر بروز پیر دو پہر دو بجے حب چوکی میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا جارہا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم جبری لاپتہ افراد کی لواحقین کا ساتھ دیں۔