خودکشی آخر کیوں
تحریر: فرید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً اور غیر فطری طریقے سے ہلاک کرنے کا عمل خُودکُشی (Suicide) کہلاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ دماغی خرابی کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں جو بیماری کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں۔
بیماری بھی دراصل دماغی توازن درہم برہم کر دیتی ہے اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں کا تعلق بھی دماغ کے عدم توازن ہی سے ہوتا ہے۔
میرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ کم سوچتے ہیں کیونکہ وہ لاعلمی اور لاشعوری جیسے مرض میں مبتلا ہیں اکثر اور بیشتر جو میں نے اپنے معاشرے میں یہ چیزیں نوٹس کیا ہے جب ہم کسی Professional Degree یا عام سی امتحان میں حصہ لیتے ہیں ہمارے لوگ پہلے سے ہی ہمیں ایک title دیتے ہیں جو کہ ایک طالب علم کیلئے ایک مزید پریشانی کا سبب بنتاہے، جب ایک اسٹوڈنٹ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو وہ منٹلی بہت ڈسٹرب ہوجاتا ہے اور وہی tittle جو اس کے مقصد سے پہلے اس کو دیا گیا تا وہ اس کو ذہنی طور پر گہری سوچنے پہ مجبور کرتا ہے وہ ایک نازک سی صورت حال پہ گزر جاتا ہے۔
وہ ڈپریشن اور بے چینی اور دماغی توازن کھو دیتا ہے آخر کار وہی کرتا ہے جس کا ڈر ہے ہمیں۔
کسی اور کا ڈر:
آپ کو ڈر امتحان کا نہیں ہے۔ آپ کو ڈر کسی اورکا ہے اوروہ کیا ہے؟ آپ کے آس پاس ایک ماحول بنا دیا گیا ہے۔ کہ یہی امتحان سب کچھ ہے۔ یہی زندگی ہے اور اس کے لئے پورا سماجی ماحول کبھی کبھی اسکول کا ماحول بھی، کبھی کبھی ماں باپ بھی، کبھی اپنے رشتے دار بھی، ایک ایسا ماحول بنا دیتے ہیں، ایسی گفتگو کرتے ہیں جیسے کسی بہت بڑے حادثے سے آپ کو گزرنا ہے۔ بہت بڑی مصیبت سے گزرنا ہے۔ میں ان سب سے کہناچاہوں گا، خاص طور پر والدین سے کہناچاہوں گا کہ بچے کی استعداد کا پتہ لگانے کے لئے والدین کو امتحانات کے نتیجے کی مارک شیٹ دیکھنا پڑتی ہے اور اس لئے بچوں کی صلاحیت کا تعین بھی بچوں کے نتیجوں تک ہی محدود ہوگیا ہے۔ بچے میں کئی ایسی چیزیں ہوتی ہے جنہیں والدین مارک ہی نہیں کرپاتے۔
ہمارے معاشرے میں کچھہ لوگ ہیں جو کہ ان کا کام صرف ورغلانہ ہے دوسروں کو، اگر ایک اسٹوڈنٹ فیل ہوتا ہے امتحان میں تو حوصلہ دینے کے بجائے وہ لوگ اکثر ان کو دوسروں سے کمپیئر کرنا شروع کرتے ہیں کہ اس کو دیکھو اس نے پہلی بار اپنا ٹیسٹ پاس کیا ہے اور آپ جو ٹیسٹ کو فیل کر کے آئے ہو وغیرہ وغیرہ ۔
اور دوسرا بڑا مسئلہ:
ہمارے کمیونیٹی میں ایک طالب علم کو اس کے مرضی کے بغیر اس کو کہا جاتا ہے آپ کو یہ ڈگری کرنا ہے۔
وہ ڈاکٹر ہے اور آپ کو بھی ڈاکٹر بننا ہے اگر وہ کوئی اور ڈگری کرنا چاہی تو اس کے فیملی اس کو اتنا مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی experience جو اس چیز میں وہ مہارت رکھتا ہے وہ سب چھوڑ دیتا ہے اس ڈگری کو اپنی مستقبل بناتا ہے۔
اور اگر اس میں ناکامی کا شکار بن گیا۔ تو اس معاشرے کو فیس کرنے کی ہمت وہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنے گھر سے ہی حوصلے کھو کر ہمت ہار چکا ہے ایک انسان کا سب سے بڑا حوصلہ اس کے فیملی ہے جب وہاں سے نہیں اور کہاں سے ۔
تب یہ لوگ دنیا میں دوسرا راستہ چننے کے بجائے اس ناکامی کو اپنی زندگی کے ساتھ آخری ناکامی سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور نفسیاتی مسائل کا شکار بن جاتے ہیں ۔
نفسیاتی مسائل بھی خودکشی کی بڑی وجہ ہیں:
ڈپریشن، (Depression) اینزائٹی، (Anxiety)اسٹریس، (Stress)کچھ ایسے نفسیاتی مسائل ہیں جنہیں ٹینشن کہاجاتا ہے۔ اگر ایک ٹیسٹ فیل ہوتا ہے تو کیا ہوگا ۔ اس چیز کو ہمارے معاشرے میں لے کے اتنا serious ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بچے نے ٹیسٹ فیل کیا ہے اور اس کو سناتے جاتے ہیں اور اس بچے کو اس چیز کی طرف بائی فورس لے کے جاتے ہیں وہ اس چیز پر پہنچ جاتا ہے اس فیصلے کے علاؤہ اس کو دوسرا راستہ بھی نہیں ملتا ہے کہ مجبوراً اس کو خودکشی کرنا پڑتا ہے۔
یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔ ہم ضرورت سے زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں۔ ہم زیادہ ہی سوچنے لگتے ہیں اور اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں یہ کوئی آخری مقام نہیں ہے۔ یہ زندگی بہت لمبی ہے۔ بہت پڑاؤ آتے ہیں، ایک چھوٹا سا پڑاؤ ہے۔ ہمیں دباؤ نہیں بناناچاہئے، چاہے استاد ہو، طالب علم ہو، کا فر ہو، یار دوست ہو، اگر باہر کا دباؤ کم ہوگیا، ختم ہوگیا، تو امتحان کا دباؤ کبھی محسوس نہیں ہوگا۔ اعتماد پھلے گا پھولے گا۔ پریشر ختم ہوجائے گا، کم ہوجائے گا اور بچوں کو گھر میں آسان اور تناؤ سے آزاد طریقے پر جینا چاہئے۔چھوٹی موٹی، ہلکی پھلکی باتیں جو روز کرتے تھے، کرنی چاہئے۔
اسے سوچنے دو
اگر ایک بچے کو اسی سوچ کے مطابق جو وہ سوچتا ہے اپنی پڑھائی کو کیسے اور کس طرح جاری رکھنا ہے اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دو وہ خود بہ خود اپنی پڑھائی جاری رکھتا ہے اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے موقع دو وہ اپنے غلطی کا خود ازالہ کرتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ اس situation میں بات کرنا ہے جس situation میں بچے ہوں نرم مزاج لہجے سے بات کرنا ہو غصے سے کھبی بچوں سے بات نہیں کرنا ہے چاہے وہ آپ کا ہو یا کسی اور کا سختی سے کھبی بھی کوئی کچھ نہیں کروا سکتا کسی بچے کے اوپر سختی کا مطلب آپ اس کو خود کسی مشکل فیصلہ کرنے پہ مجبور کر رہے ہیں وہی بچہ یا آپ کو نقصان پہنچائے گا یا اپنے کو۔
معاشرے میں یہ چیزیں بہت عام ہیں کسی دوسرے کے اوپر تنقید دوسروں کو نیچا دکھانا کم تر سمجھنا یہ وہ بیماری ہیں جو آپ کسی کی جان لے سکتے ہیں ایک ماں کو اس کے بچے سے دور کر سکتے ہو، ایک بہن کو ایک بھائی سے محروم کر سکتے ہو اور ایک بھائی کو اس کی بہن سے محروم کر سکتے ہو، ایک باپ کو اس کی عاجزی میں جو اس کا سہارا بن سکتا ہے اس سے چھین سکتے ہو چاہے وہ کوئی اسٹوڈنٹ ہو یا کسی اور پیشے سے اس کا تعلق ہو یا کسی اور فیلڈ میں ہو.
لحاظہ آپ جتنا اپنوں لوگوں سے دل کی گہرائیوں اور خلوص نیک نیتی سے محبت کرتے ہو اسی طریقہ سے دوسرے لوگوں کا خیال رکھیں اور ان سے اچھے اور پر امن طریقے سے پیش آئیں کیوں کہ آپ لوگوں کی جو محبت ہے ایک دوسرے سے وہ ایک مثالی ہونا چاہیئے، خوش رہنا ہے تو اس سے پہلے دوسروں کو خوش کرنا سیکھو ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں