جرمنی کی مقامی عدالت نے جنگ عظیم دوم کے دوران حراستی کیمپ میں 11 ہزار جنگی قیدیوں کے قتل میں نازیوں کی معاونت کرنےکے جرم میں 97 سالہ خاتون کو دو سال کی سزا سنا دی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق 97 سالہ خاتون ارمگارڈ فرکنر کو جنگ عظیم دوم کے دوران جنگی قیدیوں کے لیےقائم حراستی کیمپ میں ملازمت کے دوران 11 ہزار افراد کے قتل میں نازیوں کی معاونت کرنے کے جرم میں دو سال کی سزا سنائی گئیہے، تاہم ان کا ٹرائل گزشتہ برس ہوا تھا۔
خیال رہے کہ یہ قتل عام نازی جرمنی میں ہوا تھا جو کہ 1933 سے 1945 تک جرمن ریاست تھی جہاں بڑے پیمانے پر یہودیوں کینسل کشی کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق شمالی جرمنی میں ایک مقامی عدالت نے ارمگارڈ فرکنر کو جرم ثابت ہونے پر دو سال کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے ملزمہ کو جیولین قانون کے تحت جرم پر سزا سنائی ہے کیو نکہ جرم کے وقت ان کی عمر صرف 18 سال تھی۔
رپورٹ کے مطابق ارمگارڈ فرکنر 1943 سے 1945 کے درمیان اسٹٹہوف حراستی کیمپ میں بطور ٹائسپٹ ملازمت کرتی تھیں اور اسوقت ان کی عمر 18 سال تھی۔
ارمگارڈ فرکنر کا ٹرائل گزشتہ برس ستمبر میں شروع ہوا تھا مگر مختصر عرصے کے لیے مقدمے سے فرار ہونے کی وجہ سے ٹرائل میںتاخیر کی گئی تھی، بعدازاں انہیں حراست میں لے کر عدالت کے سامنے لایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ رپورٹس کے مطابق اسٹٹہوف حراستی کیمپ میں بھوک، بیماریوں اور گیس چیمبر کے باعث 65 ہزار افراد ہلاک ہوگئےتھے جن میں جنگی قیدی اور یہودی بھی شامل تھے جن کو نازی جرمن کی جارحانہ مہم کے دوران قتل کیا گیا تھا۔
منظم قتل
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق ارمگارڈ فرکنر نے 1943 سے 1945 کے درمیان حراستی کیمپ میں ملازمت کی اور اس پرالزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ اس سسٹم کا حصہ تھیں جس سے 11 ہزار قیدیوں اور یہودیوں کے قتل میں مدد ملی۔
رپورٹ کے مطابق ملزمہ نے کیمپ کمانڈنٹ کے دفتر میں اسٹینو گرافر اور ٹائپسٹ کے طور پر اپنے کام میں جون 1943 سے اپریل1945 کے دوران قیدیوں کو منظم طریقے سے قتل کرنے میں کیمپ کے حکام کی مدد اور حوصلہ افزائی کی تھی۔