بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا دو روزہ مرکزی کمیٹی کا اجلاس 18 اور 19 دسمبر کو مرکزی سیکریٹریٹ شال میں زیرِ صدارت مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ منعقد ہوا جس کی کارروائی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے سرانجام دیا۔
مرکزی مجلس کا آغاز بلوچستان سمیت دنیا بھر کے انقلابی شہداء کے یاد و احترام میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا، جس کے بعد مرکزی چیئرمین نے مجلس سے افتتاحی کلمات ادا کیے اور اجلاس کو باقاعدہ شروع کیا گیا۔
مرکزی اجلاس میں سیکریٹری رپورٹ، عالمی و علاقائی صورتحال، تنظیم، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل سمیت مختلف ذیلی ایجنڈے زیرِ بحث رہے۔
مرکزی چیٸرمین نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ یہ دہائی سامراجی تقسیم کاری اور نئے ورلڈ آرڈر کے تحت زورآوری، قبضہ گیری اور جبر و استحصال کے تسلسل کی دہائی ہے۔ دنیا بھر میں محکوم اقوام پھر سے منظم ہورہی ہیں اور مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ سامراجی قوتیں سفاکیت و قتل و غارت کی نت نٸی داستانیں رقم کر رہی ہیں۔ مگر اس تمام تر بربریت و لوٹ مار کے درمیان بھی محکوم اقوام و مظلوم طبقات بھی اپنی مزاحمت میں شدت لا رہی ہیں، جوکہ مستقبل میں فتح کی ضامن ہے۔
مرکزی چیٸرمین نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے خطے میں بنیاد پرست و رجعت پرست قوتیں نہ صرف منظم ہیں بلکہ وہ اقتدار پر قابض بھی ہیں اور حسب توقع وحشی و سفاک بھی ہیں۔ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو یا بورژوا جمہوری طریقہ کار کے تحت ھندوستان پر بی جے پی و نریندر مودی کا قبضہ، خطے میں بنیاد پرست قوتوں کو مذید توانائی بخشنے کا باعث بنا ہے۔ ایسے جمہوریت دشمن و بنیاد پرست یلغاروں کے بیچوں بیچ ایران کے مذھبی رجیم کے خلاف ایک سیکیولر تحریک کا ابھر آنا ایک انتہاٸی توانا عمل و تحریک ہے جس سے محکوم اقوام و طبقات کو توانائی اور شکتی ملتی ہے۔
مرکزی چیٸرمین نے کہا کہ بی ایس او اپنے قومی و انقلابی پرچم کو بلند کیے ہوٸے ہے اور اپنے انقلابی راہ پر ایک ایسے وقت میں بھی گامزن ہے جہاں وطن مکمل طور پر یلغاریوں کے نرغے میں ہے، وحشت و دہشت وطن پر راج کر رہی ہے اور سفاکیت و لوٹ مار اپنے عروج پر ہے۔ بی ایس او کو کمزور کرنے کےلیے نِت نٸے حملے جاری ہیں اور آج بھی اس رد انقلابی عمل میں کچھ عناصر اپنی بھرپور توانائی صرف کر رہے ہیں۔ مایوسیاں، الزام تراشیاں، بے بنیاد پروپیگنڈے کسی بھی محکوم و کالونیٸل سماج کا خاصہ ہوتی ہیں وہیں عام عوام و قوم کا اعتماد جیتنا بھی تنظیم اور تنظیمی قیادت کا خاصہ ہوتی ہے۔ تخریب کاری کا عمل آج بھی کچھ نادانوں کی جانب سے جاری ہے تو وہیں پر تنظیمی ساتھیوں کا انرجی سمیٹے رکھنا اور اس انقلابی توانائی کو مجتمع رکھتے ہوئے آگے منتقل کرتے رہنا بی ایس او کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ماسز کی مایوسی، خاموشی، سیاسی بے عملی اور بدگمانی کو فقط ایک واضح ساٸنسی و انقلابی نظریہ سے شکست دی جا سکتی ہے اور آج تک بی ایس او کے ساتھیوں کی تمام تر تواناٸی اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے کی ہمت و جستجو انہی سچے انقلابی نظریات ہی کی بدولت ہے۔
تناظر پر بات کرتے ہوئے بی ایس او کے مرکزی رہنماٶں نے کہا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے نے جس طرح بنیاد پرست و شدت پسند گروہوں کو توانائی بخشی تھی ٹھیک اسی طرح یوکرین پر سامراج روس کے قبضے نے بھی دیگر سامراجی قوتوں کے لیے مزید قبضہ گیری کرنے اور سفاکیت بڑھانے کی حوصلہ افزاٸی کا سبب بنا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں ایران مزید سفاکیت کے ساتھ مظاہرین کو کچلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح ترکی بھی کردوں کو بلا امتیاز اپنی سفاکیت و بربریت کا نشانہ بنا کر جیٹ طیاروں سے بمباری کر رہا ہے اور داعش جیسی قوتوں کو مضبوط و توانا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی دیکھا دیکھی میں پاکستان بھی بلوچستان میں اپنی جبر و بربریت کو بڑھاتے ہوٸے ڈرون حملوں کے ذریعے بلوچ نسل کشی کو بڑھاوا دینے کا مرتکب ہو رہا ہے۔
مرکزی قائدین نے کہا کہ جہاں ایک طرف امریکی سامراج کا خونی شکنجہ مڈل ایسٹ پر کمزور پڑ رہا ہے تو دوسری جانب چینی سامراج بڑی مکاری کے ساتھ وہاں اپنے شکنجے مضبوط کر رہا ہے جو کہ عالمی سیاسی منظر نامے پر سامراجی قوتوں کے آپسی رسہ کشی کو مزید تیز کرے گی۔ ایسے میں روس اور یوکرین کے تنازعہ کو ایک لمحے کےلیے بھی بھلانا غلطی ہوگی جہاں دونوں طرف سامراجی طاقتیں بارہا اس بات کا عندیہ دے چکی ہیں کہ تیسری عالمی جنگ بعید از قیاس نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بحرانات اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ بن چکے ہیں۔ لیکن اب کی بار ہر نیا بحران پچھلے بحران سے کٸی گنا بڑھ کر اس سفاک نظام کے کھوکلے پن کو مزید واضح کر رہا ہے۔ کووڈ 19 کی وبا نے ایک طرف اس نظام کے پرخچے اڑا دیے تھے تو یوکرین روس تنازعہ نے اس نظام کو مرگ کے بستر پر پہنچا دیا ہے جہاں ھزاروں لاکھوں عام محنت کش روزانہ کی بنیاد پر اس نظام کے جنگی جنونیت سے متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارے خوراک و توانائی کے شدید بحرانات کا اشارہ بھی دے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نظام کی زوال پذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلی صدی کا سامراجی چیمپیٸن برطانیہ آج بحرانات کی ایسی لپیٹ میں ہے کہ چند ماہ کے اندر چار چار حکومتی سربراہان کو بدلنے کے باوجود ان بحرانات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی اور آج وہاں عام محنت کش ایک دوسرا مگر آزاد و منصفانہ اور استحصال سے پاک نظام کی تلاش میں سرگرداں ہیں جس کی واضح ترین مثال وہاں چلنے والی شعبہ صحت کے محنت کش نرسوں کی ملک گیر تحریک ہے۔
مرکزی رہنماؤں نے کہا کہ آج فاشزم اور پاپولزم کا ابھار بھی اسی سفاک نظام کی دین ہے۔ ایک جانب گرامشی کے وطن اٹلی میں جارجیا میلونی جیسی فسطاٸی خواتین کا ابھار ہمیں نظر آتا ہے تو دوسری جانب لاطینی امریکہ کے ملک برازیل میں بولسنارو کی قیادت میں رائٹ وِنگ پاپولسٹوں کی ہٹ دھرمی اور کامریڈ لولا کے سامنے شکست تسلیم نہ کرنا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
ساتھیوں نے علاقائی صورتحال پر بات کرتے ہوٸے کہا کہ ہمارا وطن بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے جبر و بربریت کا شکار ہے۔ سیاسی کارکناں آئے روز جبری گمشدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں، بلوچ قوم کی منظم نسل کشی اپنے جوبن پر ہے، گام گام پر چوکیاں اور ان کا خوف وطن کو ایک کھلے قید خانے میں تبدیل کر چکا ہے۔ تعلیمی اداروں کو ملٹرائیز کر کے وہاں بندوق برداروں اور ڈنڈہ مار گروہوں کے ذریعے تعلیمی و تخلیقی ماحول کو ختم کیا گیا ہے۔ مکران میں آئے روز تعلیمی اداروں کو نظر آتش کرکے بلوچ نوجوان نسل کو علم سے دور رکھنے اور مایوسی و جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ بلوچ وطن پر جاری اس جبر و بربریت اور گھٹن کی بدولت ہمیں سرزمین پر خود کشیوں میں اضافے کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس منظر نامے میں گراؤنڈ پر موجود سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر سیاسی مزاحمت کے ذریعے اس نسل کشی و قومی بدحالی کو شکست دیں اور قومی تحفظ کا سبب بنیں۔ مگر اس وقت گراؤنڈ پر نظریاتی انقلابی جماعت کی غیر موجودگی اس اجتماعی تکلیف کو مزید اذیت ناک بنا رہی ہے۔ جب کہ دوسری جانب پارلیمانی قومپرست جماعتیں وطن کے درد کو گھٹانے کی بجائے مسلسل وطن فروشی کا مرتکب ہو رہی ہیں۔ پارلیمانی جماعتوں کی مرضی و منشا سے ریکوڈک کا عالمی منڈی میں نیلام ہونا وطن فروشی کی ایک اور تازہ مثال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس تمام تر بد حالی اور ظلم و جبر کے خاتمے اور نجات کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے منظم انقلابی و سیاسی مزاحمت۔ عام محکوم بلوچ سماج کو واضح ترین ساٸنسی و انقلابی نظریات کے گرد منظم کرکے ہی اس محکومی سے چٹھکارا پایا جا سکتا ہے۔ اسی اجتماعی قیادت کی تخلیق کےلیے بی ایس او کوشاں ہے اور انقلابی و سائنسی نظریات کے گرد کیڈر سازی کا عمل تیزی سے جاری رکھیں ہوئے ہے۔
تنظیم کے ایجنڈے پر ساتھیوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنیاد پرستوں، موقع پرستوں، مفاد پرستوں اور پاپولسٹوں کے نقصاندہ فروعی ابھار کو فقط نظریاتی اسلحوں اور منظم انقلابی کیڈرز کے ذریعے ہی شکست دیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے انقلابی تنظیم کا ہونا اولین شرط ہے۔ بی ایس او اپنے انقلابی نظریات کے ساتھ ان استحصالی قوتوں کے سامنے کھڑی ہے۔ کیڈر سازی کے لیے مختلف تحریکوں کا مطالعہ، نظریاتی و انقلابی اسٹڈی سرکلز، انقلابی لٹریچر کی اشاعت اور نیشنل و ریجنل اسکول جیسے انقلابی ایونٹس کا انعقاد بی ایس او کی کیڈر سازی کے انقلابی عمل کو مزید توانا اور مضبوط بنا رہی ہے.
مرکزی مجلس میں سیکریٹری جنرل نے تفصیلی کارکردگی رپورٹ پیش کی جس میں گزشتہ کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور آئیندہ کے اہداف متعین کیئے گئے۔
تنقید برائے تعمیر کے ایجنڈے میں مرکزی ساتھیوں نے مجموعی طور پر تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ آزادانہ فیصلہ سازی، تنظیمی خود مختاری اور خود احتسابی کا عمل سیاسی تحریک کے اندر کامیابی کے ضامن ہیں۔ تنقید اور سوال کا معیاری عمل بی ایس او کی طاقت و توانائی کا راز ہے اور تعمیری تنقید اور سوال کے معیاری عمل میں ہی پوشیدہ ہے اور اس معیار کو قائم و جاری رکھنا بی ایس او کے ہر کیڈر پر فرض ہے۔ اسی اثناء میں ساتھیوں نے خود تنقیدی جائزے کے بعد اصلاح کے طریقہ کار وضع کیے اور آئندہ کاربند رہنے کا عہد کیا۔
آٸندہ کے لاٸحہ عمل میں انقلابی تحاریر لکھنے، نیشنل اسکول کے انعقاد، تنظیمی دورے سمیت دیگر اہم فیصلہ جات لیے گئے اور سینیٸر جوائنٹ سیکریٹری کامریڈ خلیفہ بلوچ اور تربت زون کے ساتھی کامریڈ ظفر بلوچ کے استعفٰی نامے منظور کیے گئے۔ جب کہ کامریڈ سجاد بلوچ، سنگت یاور بلوچ اور کامریڈ رحمان بلوچ کو اتفاق رائے سے مرکزی کمیٹی کا ممبر منتخب کیا گیا۔
آخر میں مرکزی اجلاس کے تمام ایجنڈوں پر رائے شماری کر کے ان بحثوں اور فیصلہ جات کو اتفاق رائے سے پاس کیا گیا اور نئے اہداف کو بر وقت عبور کرنے کےلیے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کا عہد کیا گیا۔