بلوچ کونسلز: تعلیمی جہد اور روشن مستقبل کاپاسبان ۔ شعیب بلوچ

418

بلوچ کونسلز: تعلیمی جہد اور روشن مستقبل کاپاسبان

تحریر: شعیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندہ اقوام کے تاریخ أن کے تعلیمی نظام سے وابستہ ہوتاہے کہ لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ کتنا شعور یافتہ اور کتنا کتاب دوست ہوتےہیں۔اگر محکوم اور پسماندہ قوموں کی بات کریں تو ہمیں تعلیم ہی واحد زریعہ نظر آےگی، جو أن کے روشن مستقبل کے خواب کو حقیقت میں بدلتی ہے۔لیکن سوال یہاں پہ یہ پیدا ہوتی ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے اور اس میں کردار کون ہوسکتا ہے۔ یقیناً وہ طبقہ جو شعوری فکر اور قومی جذبہ رکھتا ہے, یہی لوگ اس خواب کے پاسبان ہونگے۔جن میں کردار اکثر نوجوان طبقے کا نظر آتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان اس جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، جن میں اہم اور سنجیدہ مسئلہ اعلی تعلیمی اداروں اور بہتر تعلیمی نظام کا فقدان ہے۔ صوبے میں ناخواندگی کی شرح 60 فصد سے بھی زیادہ ہے جس کی وجہ علمی درسگاہوں کا کمی ہے۔

بلوچستان میں چند جامعات موجود ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات ہر سال فارم جمع کرتےہیں لیکن أن میں سے کچھ کے داخلہ مختلف پروگرام میں بمشکل سے ہو جاتے ہیں۔ باقی طلباء دیگر صوبوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں پہ ان کا حوصلہ افزائی اور داخلہ کیلئے بلوچ کونسلز منتظر ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ نہ صرف کسی یونیورسٹی کا حصہ بنیں بلکہ أن کا ادب سے رابط قائم رہے۔

شاہد بلوچ طلباء کیلے باہر کے یونیورسٹیوں میں پڑھنا ممکن نہیں ہوتا اگر بلوچ کونسلز وجود نہیں رکھتے۔کیونکہ بلوچستان میں منتظر طلباء کو دیگر صوبوں کے جامعات میں داخلہ کے حوالے سے رسائی اور کیررکونسلنگ کون دیتی۔ بلوچ کونسلز کے کردار اس حوالے سے قابل تعریف ہیں کہ وہ دیگر صوبوں بالخصوص پنجاب اور اسلام آباد کے بہترین تعلیمی اداروں کے ایڈمیشن کا طریقہ کار اور مواقع سے بلوچستان کے طلباء کو علم دیتے ہیں۔آج بلوچستان سے طلباء پنجاب اور اسلام آباد کے یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور اس میں کردار بلوچ کونسلز کی ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس کوسلز سے مراد کیا ہے۔ نام ہی سے واضح ہے کہ یہ بلوچ اسٹوڈنٹس پر مشتمل ہے جو بلوچستان کے باسی ہیں، أن کا ایک علمی و شعوری کاروان اور قومی یکجہتی ہے۔ جس کے مقاصد و منشور یہی ہیں کہ بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ اسٹوڈنٹس کو ایک بہتر علمی ماحول, بلوچستان میں اعلی تعلیم کو ہر ایک گدان( گھر) تک پہنچانا, بلوچ طلباء کے درمیان کتاب دوستی پیدا کرنا, سیاسی شعور أجاگر کرنا اور بلوچستان میں تعلیمی انقلاب لانے کیلے جہد کرنا ہے۔ تاکہ اس صوبے میں فکری سوچ,سائنسی علم و ترقی, سیاسی شعور اور عظیم ادیب و دانشور پیدا ہوں۔

ہمارے خودساختہ رہنماؤں کے ترجیحات میں شاہد لکھا اور پڑھا بلوچستان اہمیت کا حامل نہیں ہے اگر یہ بات غلط ہوتا تو بلوچستان کی ہر ضلع میں تعلیمی نظام بہتر اور درسگاؤں کا عدم موجودگی نہیں ہوتا۔ نہ ہی بلوچ طالب علموں کو باہر کی صوبوں میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی، جہاں پہ انہیں نسل کی بنیاد پہ حراساں کیا جاتاہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے تعلیمی اداروں میں کم اور سڑکوں پہ انصاف کی منتظر ہوۓ زیادہ نظر آئیں۔ جب بھی بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور کرنے کی کوشش ہوئی ہے تو بلوچ کونسلز نے اپنے تعلیمی اور آئینی حق کیلے پرامن احتجاج کرنے کو ہر وقت ترجیح دیا ہے اس لے کہ وہ ایک روشن مستقبل اور شعوری نسل کے پاسبانی کررہےہیں۔

یقیناً حالات اور وجوہات پہ تبصرہ کریں تو بلوچوں کے قسمت میں مایوسی اور محرومی لکھا گیاہے گو کہ قدرتی معدنی وسائل سے یہ صوبہ مالا مال ہے جن پہ ملک کی معاشی ترقی انحصار کرتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دیگر صوبوں کے بڑے یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء کو کہا جاتا ہے کہ آپ بلوچ طلباء ہمارے رحم و خیرات پہ تعلیم حاصل کر رہے ہو۔ اس جدید دور میں بھی ہمارے تعلیمی اداروں میں علاقائی و نسلی تصعب کا موجود ہونا ہمیں فقط ایک فرسودہ نظام کی جانب لے جاسکتی ہے نہ کے ہمارے درمیان علمی آہنگی و تخلیقی فکر پیدا کرسکتا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز بلوچستان کی طلباء کو صرف داخلہ آگاہی کے حوالے سے رہنمائی نہیں کرتےہیں بلکہ ان کے درمیان اتحاد, ثقافت اور وطن دوستی کو بھی پروان چھڑاتے ہیں۔اگر علم سے وطن دوستی سیکھا نہیں جاسکتی تو ایسے علم سے زندگی میں کوئی بہترین تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔

بلوچ کونسلیں ہمارے بلوچ طلباء کے درمیان اس چیز کی کمی کو پورا کررہےہیں اور انہیں اس چیز کا علم بھی دے رہےہیں کہ باہمی اتحاد سے بڑا کوئی اور طاقت دنیا میں نہیں ہے۔ کسی بھی قوم میں اتحاد نہ ہو تو وہاں مسائل جنم لیتے ہیں اور زوال آمد ہوتی ہے۔

اس کی ایک اور مثال ہمیں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد اور لاہور کے شکل میں ملتاہے کہ اپنے ساتھیوں حفیظ بلوچ اور بیبرک امداد بلوچ جو جبری طور پر لاپتہ ہوۓ تھے۔ایک کو ضلع حضدار کی ایک نجی اکیڈمی سے لاپتہ کیاگیاتھا اور دوسرے کو پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے۔ بی ایس سی اسلام آباد اور لاہور کے انتھک جہد اور بلوچ طلباء کے باہمی اتحاد سے انہیں واپس منظر عام پہ لایاگیا۔

دنیا میں کا ایک روایت بن گئی ہیکہ ہر چیز پہ اپنا تنقیدی راۓ دینا, درست کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور غلط کو صیح قرار دینا۔ بلوچ کونسلز کو بھی ایسے کئی تنقیدی راۓ کا سامنا ہے لیکن ان میں سے بیشتر تنقید شعوری دائرے سے باہر ہیں، جن کو ہمیشہ زیر استعمال لایا جاتا ہے کہ بلوچ طلباء کے اتحاد کو کمزور کریں۔أن کو منظم ہونے سے محروم کریں جہاں وہ تخلیقی علم کو پروان چڑھانے میں انتھک جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمیں اتنا علمی شعور ہو کہ اس معلوماتی اورٹیکنالوجی دور کے مختلف پروپیگنڈا کو سمجھ سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں