بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرز نے دی بلوچستان پوسٹ کو گذشتہ دنوں طلباء پر ایف سی کی تشدد سے متعلق بتایا کہ طلباء کی بنیادی مطالبات کی مانگ پر احتجاج پر غصہ نکالنے کے لئے فورسز کا استعمال کیا گیا۔ پانی، گیس اور دیگر بنیادی مطالبات پر احتجاج کیا گیا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ نے دو پروفیسرز سے اس حوالے سے رابطہ کیا جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طلباء کے احتجاج سے خائف وائس چانسلر نے طلباء کے جھگڑے کو جواز بناتے ہوئے فورسز کو تشدد کی اجازت دی جبکہ اصل مسئلہ طلباء کا وائس چانسلر کیخلاف احتجاج تھا۔
انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ایف سی کے 5 سو سے زائد اہلکار تعینات ہیں۔
پروفیسرز نے کہا کہ کوئٹہ کی سردی میں گیس کے بغیر زندگی مشکل ہے اور طلبا یونیورسٹی میں یہی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ طلباء نے بغیر سہولیات کے امتحانات لینے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ طلباء کے ساتھ ساتھ یہاں ہمارے لئے بھی مشکلات بڑھ چکے ہیں فورسز کے ایک پورا بریگیڈ کو بٹھاکر تعلیمی نظام کو مفلوج کیا گیا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں علمی ماحول اب نہیں رہا، اساتذہ یہاں نیشنل ازم، مذہب، آئین جیسے کسی بھی موضوع پر بات نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں سے طلباء کی جبری گمشدگیوں میں بھی ایف سی ملوث ہے۔
دوسری جانب ترجمان بی ایس او نے گذشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وائس چانسلر کے احکامات پر سیکورٹی فورسز نے جامعہ میں پر امن اور نہتے طالبعلموں پر براہ راست حملہ کیا۔ لاٹھی، چارج، فائرنگ اور تشدد سے درجنوں تنظیمی اراکین اور معصوم طالبعلم زخمی ہوگئے ہیں۔
بی ایس او ترجمان نے کہا کہ جامعہ میں فورسز کی موجودگی اور براہ راست طالبعلموں پر تشدد کا ذمہ دار وائس چانسلر ہے جنہوں نے ادارے کے اندر ایف سی جیسے تعلیم دشمن فورسز کو انتظامی اختیارات دیے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء و طلباء ہراسگی پر کمیشن کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بی ایس او کے رہنماوں سے رابطہ کرکے واقعے کی تفصیلات معلوم کی تاہم اس حوالے سے تاحال انہوں کچھ نہیں کہا ہے۔
وہاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایف سی اہکاروں کی بڑی تعداد طلباء کے پچھے ہتھیار لے کر بھاگ رہے ہیں۔
بلوچ سیاسی اور طلباء تنطمیں یونیورسٹی سے ایف سی کو نکالنے کی دیرینہ مطالبے کو دوہرا رہے ہیں۔
جبکہ بعض سوشل میڈیا صارفین بلوچستان یونیورسٹی میں ایف سی کے رہنے کا جواز پیش کررہے ہیں۔ تاہم بلوچ سوشل میڈیا حلقوں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ فیک اکاونٹس اور باقاعدہ فوج کی طرف مخلتف این جی اوز کے ذریعے بلوچستان کے بجٹ سے مذکورہ افراد کو تنخواہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ بلوچستان کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹاسکے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں ایف سی اہلکاروں کا طلباء پر تشدد۔@ImaanZHazir @HamidMirPAK @Matiullahjan919 @RiazSangi @KiyyaBaloch @Intekhabhd @azadi_quetta pic.twitter.com/IjYHRvq11A
— Deedag Baloch (@Deedagbaloch32) November 30, 2022