افغانستان میں خواتین کو تعلیم سے روکنا انسانیت کے خلاف جرم ہے: یورپی یونین

314

ایسے اقدامات سے طالبان خود کو افغان آبادی اور عالمی برادری سے مزید الگ تھلگ کر رہے: یورپی یونین

یورپی یونین نے افغانستان میں خواتین کو تعلیم سے روکنے کے فیصلے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دے دیا۔

’’ جی 7 ‘‘ اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ دیگر ممالک نے بھی طالبان کی جانب سے یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کے داخلہپر پابندی لگانے اور افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے اپنے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو استعمال کرنے کےامور پر دیگر سخت پابندیاں لگانے کے حالیہ فیصلوں کی شدید مذمت کی ہے۔

یورپی یونین نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان ایسے اقدامات سے خود کو افغان آبادی اور عالمی برادری سے مزید الگ تھلگ کر رہےہیں۔ ای یو نے طالبان سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ بھی کردیا۔

وزارت اعلیٰ تعلیم کی طرف سے تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو بھیجے گئے خط کے مطابق منگل کو طالبان نے افغانستان میںخواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر غیر معینہ مدت تک پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر ندا محمد ندیم کے دستخط والے خط میں کہا گیا کہ میں آپ سب کو مطلع کرتا ہوں کہ اگلے نوٹس تک خواتین کی تعلیم کو روکنےکے مذکورہ حکم پر عمل درآمد کریں۔

وزارت کے ترجمان ضیاء اللہ ہاشمی جنہوں نے ٹویٹر پر پیغام پوسٹ کیا نے اے ایف پی کو ایک تحریری بیان میں اس فیصلے کیتصدیق بھی کی ہے۔

ہزاروں خواتین کو ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں داخلے کا امتحان دئیے تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کی اعلی تعلیم پر پھرپابندی عائد کردی گئی ہے۔

گزشتہ سال اگست میں طالبان کے افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے یونیورسٹیوں کو نئے قوانین نافذ کرنے پر مجبورکیا گیا۔ ان قوانین کے مطابق مرد اور عورت طلبہ کے کلاس رومز کو الگ کردیا گیا تھا۔ طالبات کو پڑھانے کی اجازت صرف خواتین اوربوڑھے مرد پروفیسرز کو دی گئی تھی۔

23 مارچ کو ملک بھر میں لڑکیوں پر ثانوی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی جس سے یونیورسٹیوں میں ان کی تعداد میں شدید کمی واقعہوئی۔

12 اکتوبر کو امریکہ نے اعلان کیا کہ اس نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر طالبان پر نئیپابندیاں عائد کر دی ہیں۔