ہمارے چراغ بھی روشن ہونگے
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جہاں چراغ جلے، وہاں اندھیرا نہیں ہوسکتا اور جہاں شعور بلندیوں پر پہنچے وہاں خاموشی نہیں ہوسکتی لیکن اس دیش میں ہر سو اندھیرا ہے، پہاڑ، دریا، ندی نالوں میں خون کی طغیانی بہہ رہی ہے، ماؤں، بہنوں کی سسکیاں اور آہیں آسمان تک نہیں پہنچ پارہی یا آسمان والا بھی سن نہیں رہا، ہوسکتا ہے، ایسے ہو کہ آسمان والا خاموش لوگوں کی طرفداری نہ کرتا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آسمان والا ان کی سنتا ہے جن کی آواز میں دم خم ہو اور وہ اندھیروں میں بھی چراغ جلا کر دوسروں کو روشنی فراہم کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔ لیکن ہماری روشنی ایک بار کیوں بجھ گئی ؟ کیا روشنی بجھانے والے ان سے بھی طاقتور تھے،جن کے سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ؟ کیا اس بار ہم کمزور ہیں کہ اس بربریت پر خاموش ہیں؟ کوئی تو بات ہے کہ ظلم و جبر رک نہیں رہی،لوگوں کی تصویریں ختم ہونے کا نام نہیں لی رہیں- یا یوں سمجھا جائے کہ ہماری آواز کا دم خم ختم ہوگیا ہے-
اگر ہماری آواز کا دم خم ختم ہوگیا ہے تو یہ چراغ کون جلائے گا جن کو بجھا دیا گیا – کوئی تو ہو جو ان چراغوں کو پھر روشن کرسکے-
جبری گمشدگی،مسخ شدہ لاشیں ،اجتماعی قبریں،جعلی مقابلے،تعلیمی سرگرمیاں مانند جلتے ہوئے گھر ، جبری نقل مکانی کے واقعات ، قتل،خود کشی، روڈ حادثات، کیسنر سے اموات ،بارشوں سے ہونے والی تباہی بلوچستان کا حقیقی عکس ہے- یہ عکس کھینچنے والا کون ہے سب جانتے ہیں- یہ پالیسیاں جو بلوچستان کو تباہ و برباد کئے ہوئے ہیں ان کے پیچھے ریاست کے تمام ادارے ہیں جو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بلوچ قوم کو چراغ جلانے سے دور کررہے ہیں لیکن کچھ سرپھروں نے سر پر کفن باندھ کر اس چراغ کو جسے آزادی کہتے ہیں کو جلانے کا تہیہ کرلیا ہے اور اس چراغ کو دوبارہ روشن کرنے کے لئے پروانے بنے ہوئے ہیں-
لیکن یہ پروانے کب کامیاب ہونگے جب انہیں عوام کی تائید و حمایت حاصل ہوگی- عوام کی تائید و حمایت کے بغیر چراغ جلانا نا ممکن امر ہوگا-
بلوچ عوام کو چاہئیے کہ وہ سطحی مسئلوں میں الجھنے کے بجائے قومی مسئلے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں کیونکہ بلوچ کے جتنے بھی مسائل موجودہ دور میں وجود رکھتے ہیں ان کا براہ راست تعلق قومی غلامی سے ہے اور قومی آزادی کے بغیر یہ مسائل جوں کے توں برقرار رہینگے-
بلوچ کہیں بھی آباد ہے چاہیے کراچی میں،حیدرآباد میں ،میر پور خاص میں یا پنجاب میں ان کا مرکز بلوچستان ہے اور ان کے ساتھ پاکستانی ریاست کا رویہ ایک جیساہے-
کہیں بھی بلوچ کو زندگی گزارنے کے لئے بنیادی حقوق میسر نہیں اور جب بلوچ اپنے حقوق کی جدوجہد شروع کرتے ہیں تو ان پر ریاستی کریک ڈاون شروع کرکے جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کے علاوہ جعلی مقابلے شروع کئے جاتے ہیں-
ان سب کا حل کیا ہے-کیا کراچی میں بسنے والے بلوچ اگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، تو کیا یہ ریاستی سازش تو نہیں، بلوچ قوم کو سطحی مسائل میں الجھا کر حقیقی مسائل کے سوچنے سے بھی دور رکھا جائے- اگر پنجاب کے بلوچ کینسر اور دیگر بیماریوں کا شکار ہیں، تو یہ ریاستی سازش نہیں – کیا ریاست وہاں ایک کینسر ہسپتال تعمیر نہیں کرسکتی یا کرنا نہیں چاہتی ؟ بلوچ قوم کو یہ سوچنا چاہئیے اور ان سطحی مسئلوں سے نکل کر قومی تحریک کا دامن پکڑنا چاہئیے تاکہ جو چراغ کبھی ہمارے ہاں جلتے تھے وہ دوبارہ روشن ہوجائیں اور ہماری آنے والی نسل کا مستقبل روشن ہوجائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں