گوادر اور دیگر علاقوں سے تیل سپلائی کرنے والے چھوٹے بڑے گاڑی مالکان اور ڈرائیورز نے دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو بتایا ہے کہ کوسٹ گارڈ نے ایک مقامی شخص ملا فدا دشتی کے ذریعے بھتہ خوری کا کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم نان شبنیہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔
تیل کے کاروبار سے منسلک لوگوں کے مطابق ایران سے آئے ہوئے تیل کو جب گوادر سے دیگر علاقوں کو منتقل کیا جاتا ہے ایف سی ، کوسٹ گارڈ سمیت پولیس بھاری بھتہ خوری کے بعد انہیں آگے جانے دیتے ہیں۔
انکے مطابق نلینٹ ،بدوک اور ناکہ کھلاڑی کے علاقے میں ملا فدا دشتی نامی شخص ایک گاڑی سے 75 ہزار بھتہ لے کر ڈی جی کوسٹ گارڈ کا حصہ کراچی پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بیشتر لوگوں کا کاروبار یہی ہے اس پر مخلتف طریقوں سے قدغن لگایا گیا ہے جو ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کی سازش ہے۔
انہوں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کاروبار پر سیکورٹی فورسز کی بھتہ خوری ختم کیا جائے ۔
دوسری جانب آج ایرانی تیل لے جانے والی بڑی گاڑیوں کے خلاف پک اپ گاڑی والوں کا پسنی زیروپوائنٹ پر دوبارہ احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے روزگار پر قدغن لگایا جارہا ہے،روپوائنٹ پر دوبارہ احتجاج شروع کردی۔
احتجاج کرنے والوں نے بتایا کہ مکران کوسٹل ہائی وے پر متعین چیک پوسٹوں کے سامنے سے بڑے پیمانے پر روزانہ لاکھوں لیٹر ایرانی تیل کی سمگلنگ ہورہی ہے جس سے چھوٹی گاڑی مالکان بے روزگار ہوگئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان نے دو ہزار لیٹر ایرانی تیل کی ترسیل کا نوٹیفیکشن جاری کیا لیکن یہاں پر خلاف قانون 50 سے ساٹھ ہزار لیٹر ایرانی تیل کی سمگلنگ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی تیل لے جانے والی بڑی گاڑیاں روزانہ لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لے جارہی ہیں ۔
انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مکران کوسٹل ہائی وے پر جتنے بھی چیک پوسٹ ہیں وہ روزانہ بھتہ لے رہے ہیں دوسری جانب ڈی ایس پی پولیس،ایس ایچ او صدر تھانہ احتجاج پر بیٹھے چھوٹی گاڑی مالکان سے مذاکرات کے لیے پہنچ گئے اور دس دن کی مہلت مانگ لی کہ دس دن کے بعد بڑی گاڑیوں کے زریعے ایرانی تیل کی سپلائی بند کردی جائے گی۔