بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں حق دو تحریک کا شہید لالہ حمید چوک پر دھرنا آج بارہویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر حق دو تحریک کے سربراہ ہدایت الرحمان اور حسین وڈیلا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہمیں یہی پیغام دی جارہی ہے کہ پرامن جدوجہد ک کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس احتجاج کا مذاق اڑا جارہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مسلح جدوجہد اور ڈاکٹر اللہ نذر صیح راستے پر ہیں۔ چین سے ہمارا کوئی لڑائی نہیں لیکن جب تک بلوچ لڑ رہے ہیں چین یہاں سے نکل جائے ۔
انہوں نے گذشتہ دنوں کیچ میں جبری گمشدگی کے شکار اور بعد ازان رہا ہونے والے چاکر بلوچ ، خاران میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتار نوجوان کی بھائی اور بابی کی خودکشی پر پارلیمانی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں اجل کھود کرنے والے سقراط ان واقعات پر کیوں خاموش ہے؟
انہوں نے کہا کہ خاران اور بولان واقعات ناقابل برداشت ہیں ، بلوچ کے خون پر بیانات دینے والے ہر روز وزارات لے رہے ہیں۔جو الزامات شہید غلام پر ان لوگوں لگائے آج ہم پر لگا رہے ہیں لیکن بلوچ جانتے ہیں انہوں نے اسلام آباد کی منڈیوں میں بلوچ کا سودا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی نظریہ ، فکر کے نہیں بلکہ بلوچ ہونے کے پاداش میں مارے جارہے ہیں اور آج بھی حقیقی قوم پرستوں کے خون بہائے جارہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ یہ بات بلکل غلط ہے کہ یہاں سی پیک اور ترقی ہے۔ سی پیک کے ثمرات پنجاب کو مل رہے ہیں یہاں صرف فوجی چیک پوسٹیں بنائے گئے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ دھرنے کے منظور کئے گئے مطالبات پر عمل درآمد تک احتجاج جاری رہےگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر تین دن تک مطالبات منظور نہیں ہوئے تو گوادر پورٹ پر کام کرنے نہیں دینگے ۔
خیال رہے کہ اس دھرنے میں نئے مطالبات شامل نہیں ہے، پچھلے سال ایک مہینے تک جاری رہنے والے دھرنے کے مطالبات جن پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا انکو لے کر دوبارہ حق دو تحریک نے احتجاج شروع کی ہے۔
یاد رہے کہ حق دو تحریک میں شامل مظاہرین نے حکومت کو انیس مطالبات پیش کئے تھے جن مطالبات میں بلوچستان کی بلوچ آبادی پر مشتمل مکران ڈویژن میں غیر ضروری سکیورٹی چیک پوسٹوں کا خاتمہ، گوادر کی سمندری حدود میں غیر ملکی ٹرالرز کے داخلے اور شکار پر پابندی، ایران سے اشیائے خورونوش کی درآمد کی اجازت، شراب خانوں کے لئے جاری کیے گئے لائسنسوں کی منسوخی، لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی بھی دیگر مطالبات میں شامل تھے۔
پچھلے سال گوادر کے طویل احتجاج میں پیش کیے گئے تمام مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت بلوچستان نے دھرنا مظاہرین سے مذاکرات کیے تھے ۔
تاہم مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کے مطابق انکے تسلیم کئے گئے مطالبات میں کسی ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے ۔