فیفا ورلڈ کپ 2022 کے اہم ترین میچ میں منگل کو امریکہ کے ہاتھوں ایران کی شکست پر ایرانی صوبے کردستان میں جشن منایا گیا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران کی شکست کے بعد کردستان میں مظاہرین نے آتش بازی کا جشن منایا۔
ایران نے 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے ’احتجاج ‘ کے خلاف سکیورٹی فورسز کو تعینات کر رکھا ہے۔ مہسا امینی کے آبائی شہر سقز سمیت مغربی صوبے کردستان کے دیگر شہروں میں بھی ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔
گذشتہ شب قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران دو سیاسی حریفوں امریکہ نے ایران کو ایک سخت مقابلے کے بعد صفر کے مقابلے پر ایک گول سے ہرا دیا۔ امریکہ کی طرف سے کرسچین پولیسک نے پہلے ہاف میں گول کیا، جو ایران آخر تک برابر نہ کر سکا۔ اس فتح کے ساتھ امریکہ اگلے راؤنڈ میں پہنچ گیا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان چار عشروں سے سفارتی تعلقات منقطع ہیں، جب کہ ایران میں حکومت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اس لیے اس میچ میں قطری حکام نے سخت سکیورٹی کا بندوبست کر رکھا تھا۔
لندن سے تعلق رکھنے والی ایران وائر ویب سائٹ نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’ایران کی فٹ بال ٹیم کے خلاف امریکہ کے پہلے گول پر شہر سقز کے رہائشیوں نے جشن منایا اور آتش بازی کی۔‘
انہوں نے ای ویڈیو بھی شیئر کی جس میں آتش بازی دیکھی جا سکتی ہے اور پس منظر میں خوشی منانے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں۔ اے ایف پی ایجنسی اس مواد کی فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکی۔
کرد کارکن کیویہ غوریشی کی ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رات کے وقت جب امریکہ نے اپنا واحد گول کیا تو سنندج شہر کے ایک محلے میں خوشی سے چیخوں اور ہارن کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
آن لائن شیئر کی جانے والی ویڈیوز کے مطابق ایران کی شکست کے بعد کردستان کے ایک اور شہر مہاباد میں بھی آتش بازی کی گئی۔ ناروے میں قائم ہیومن رائٹس گروپ ہینگو کا کہنا ہے کہ مہاباد میں موٹرسائیکل سواروں نے اپنے ہارن بجا کر امریکی فتح کا جشن منایا۔
اس نے اپنے بیان میں کہا کہ صوبہ کردستان کے ایک اور شہر ماریوان میں بھی آتش بازی سے آسمان روشن ہو گیا جہاں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف مہلک کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبہ کرمان شاہ کے پاوہ اور سرپل زہاب شہروں میں بھی آتش بازی اور جشن منانے کی آوازیں سنی گئیں۔
ایران کی ٹیم کو مظاہروں کے بعد حکومت اور عوام کے دہرے دباؤ کا سامنا تھا، جبکہ کچھ ایرانیوں نے مخالف ٹیموں کی حمایت کی تھی۔
ایرانی صحافی سعید ظفرانی نے شکست کے بعد ٹویٹ کی کہ ’کیا کبھی کسی نے سوچا ہو گا کہ میں امریکی گول کی خوشی میں تین میٹر کی چھلانگ لگا کر جشن مناؤں گا۔‘
ایران سے تعلق رکھنے والے صحافی عامر ابتہاج نے ٹویٹ کیا کہ ’وہ میدان کے اندر اور باہر، دونوں جگہ ہار گئے۔‘
امریکہ نے ایران کو ہرا کر ورلڈ کپ سے باہر کر دیا اور خود ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔
سابق صحافی حامد جعفری نے ٹویٹ کیا: ’اور اسلامی جمہوریہ کی فٹ بال ٹیم کا سرکس ختم ہو گیا۔‘ انہوں نے ان ویڈیوز کا حوالہ دیا جن میں سڑکوں پر تعینات سکیورٹی فورسز ویلز کے خلاف ایران کی فتح کا جشن منا رہی تھیں اور لکھا کہ ’اب ظلم و ستم کی خبریں سکیورٹی فورسز کی پسندیدہ ٹیم کی جیت یا ہار کے پیچھے نہیں چھپ سکیں گی۔‘
اوسلو سے تعلق رکھنے والے گروپ ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ایرانی سکیورٹی فورسز نے کم از کم 448 افراد کو ہلاک کیا ہے