نظریاتی تعلیم، محکوم اقوام کی ترقی کا واحد ذریعہ
تحریر: عرفان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم دور حاضر میں دیکھ سکتے ہیں کہ محکوم کے تعلیمی نظام میں طالبعلموں اور دیگر کارکنوں کو صحیح طرح تعلیم دینے کے بجاے رٹائی جاتی ہیں اور نظریاتی تعلیم دینے کے بجائے جامد تعلیم(بینکنگ نظام تعلیم) دیتے ہیں اور جامد تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کے ذہن نہ تو تخلیقی تے ہیں، اور نہ صحیح انقلابی انسان جنم لیتے ہیں اور نہ حقیقی دانشور٫مفکر اور سائنسدان پیداکرسکتے ہیں بلکہ روبوٹ قسم کے جی حضور کا تصور تخلیق والے سوچ پیدا کرسکتے ہیں، اور اس طرح کے تعلیمی نظام میں ماہر نہیں بلکہ حاکم کی زبان بولنے والے طوطے پیداکئے جاتے ہیں، جو وہی بولتے ہیں جو انہیں تربیت دی جاتی ہے۔ ایسے جامد تعلیمی نظام میں طالبعلموں کا اپنا تخلیقی ذہن یا پیغام دینے والا تخلیقی عمل موجود نہیں ہوتا طالب علم کے دماغ کو ایک ایسا ڈبہ یا برتن بنا دیتا ہے جس میں بوقت ضرورت وہی کچھ گرتاہے جو اس میں بھر گیا ہو۔ اس کے پاس اپنے ذہین اور سوچ کا مواد نہیں ہوتا جو اسے دور جدید کے ترقی سے اگاہ کرے، اس لیے وہ انسان فطرت٫سماج اور انسانی معاشی،معاشرتی،نفسیاتی اور مذہبی شعور کی بابت اپنے ذہن کے مطابق کوئی بھی تخلیق یا تنقید رائے نہیں رکھتا جوکہ کسی محکوم قوم کے ترقی کے لیے ضروری ہے۔
دراصل نظریاتی تعلیم سےانقلابی تعلیم،سوچ،فکر اور شعور جنم لیتے ہیں جوکہ کسی طالب علم کے ذہن میں جانکاری پیدا کرتے ہیں، بجائے بت اور روبوٹ پیدا کرنے کے اور نظریاتی تعلیم کسی محکوم قوم کے طالبعلموں میں یہ جانکاری بھی پیدا کرسکتا ہے کہ کس طرح نوآبادکار کے جامد تعلیمی(بینکنگ نظام تعلیم) کے تدبیر یا حکمت عملی کو پہچان سکیں جو اسے محکوم بناتاہے، نوآبادکار کے بنائے ہوئے سماجی غلامی کے نظام کے رکھپال اور محافظ رہزن ایسا کبھی نہیں چاہتے کہ محکوم قوم کو نظریاتی تعلیمی نظام میں ایسے ماہر اور آگہی رکھنے والے لوگ پیدا ہوں جوکہ ان کے کرتوتوں کی بابت علم رکھتے ہوں، جو ان سے جواب طلبی کرسکیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی حاکمیت پسند مفادات کے تحفظ کے لیے جامد تعلیمی نظام کا جال بچھایا ہےجو ان کے مفادات کے تحفظ کےلیے ہے، محکوم اقوام اور انکے طبقاتی غلامی کے نظام کی سماجی شعور کی تعلیم٫ بنے بنائے اور طے شدہ فارمولا کے تحت دی جاتی ہے اور ایسی تعلیم غلامانہ نظام کی حیات اور بقاء کے لیے دی جاتی ہے۔
ایسی نظام تعلیم سے انسان کی سوچ اور سمجھ چھین کر اسے دوسروں کے ذہین کا تابع بنا دیتی ہے جو قومی اور طبقاتی غلامی کے نظام کے محافظ اسے اپنے مفادات کےلیے دیتے ہیں ایسے تعلیمی نظام اسکول٫کالج اور یونیورسٹی سے طالبعلم اس لیے پڑھ کر نکلتا ہے کہ وہ غلامی کے سماجی نظام کے ستون حیات و بقاء کو مزید مضبوط بناسکے یا اس کو کچھ وقت مزید قائم رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور تاریخ کے بہاؤ کے مخاف سمت میں تیرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ سماجی نظام کی وہ کھوکلی دیوار کچھ مزید وقت کے لیے مظلوم اقوام اور محکوم طبقات کو استحصالی سامراجی قوتوں کی غلامی میں باندھ کر رکھ سکے جو دن بدن ان کا خون چوسی،گوشت نوچتی اور انہیں ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔
اس کے برعکس محکوم قوم کے لیے یہ ضروری ہے کہ نظریاتی تعلیم اور معلومات کا ایسا جال بچھانا چاہئیےجو سیکھنے اور سکھانے کے سائنسی اصول پر مبنی ہو یعنی نظریاتی تعلیم کسی تنظیم٫سیاسی پارٹی اور موبلائزیشن کے ذریعے سے دی جائےتاکہ محکوم قوم کے طالبعلموں کو حقیقی اور سائنسی طریقہ کار نظریاتی تعلیم سے مل جائے جوکہ حقیقت میں کسی محکوم قوم کو اس جدید دور میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے مدد گار ثابت ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں