طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کی موت اور تدفین کو برسوں خفیہ رکھنے کے بعد طالبان حکام نے ان کی آخری آرام گاہ کا انکشاف کر دیا ہے۔
افغان گروپ کے بانی کی صحت اور ان کے ٹھکانے کے بارے میں سن 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد کئی افواہیں گردش کرتی رہی تھیں لیکن طالبان نے اپریل 2015 میں اعتراف کیا تھا کہ ان کی موت دو سال قبل ہوئی تھی۔ اتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے ایجنسی ‘فرانس پریس’ کو بتایا کہ تحریک کے سینئر رہنماؤں نے صوبہ زابل کے ضلع سوری میں عمرزو کے مقام کے قریب طالبان کے بانی کی قبر پر ایک تقریب میں شرکت کی۔
انہوں نے بتایا کہ “بہت سے دشمن آس پاس تھے اور ملک پر قبضہ کرلیا گیا تھا اس لیے ملا عمرکے مقبرے کو نقصان سے بچانے کی خاطر اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔”ذبیح اللہ مجاہد کے بقول “صرف ملا عمر کے قریبی خاندان کے افراد ہی اس جگہ سے واقف تھے۔”
افغان طالبان گزشتہ سال اگست میں اس وقت اقتدار میں واپس آئے تھے جب انہوں نے 20 سالہ جنگ کے بعد امریکہ سے ایک معاہدہ کیا تھا اور پھر اگست 2021 میں ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
قائم مقام وزیرِ دفاع اور ملا عمر کے صاحب زادے مولوی محمد یعقوب مجاہد کا کہنا تھا کہ ملا محمد عمر مجاہد نے افغانستان میں لوگوں کو متحد کرنے کے علاوہ تمام مسالک کو اکٹھا کیا۔ طالبان حکام کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ طالبان رہنما سفید اینٹوں کے ایک سادہ مقبرے کے ارد گرد جمع ہیں جو بجری سے ڈھکا ہوا ہے اور مقبرے کے ارد گرد ایک سبز دھات کا پنجرہ ہے۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ اب فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ لوگوں کے لیے قبر کی زیارت کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ ملا عمر کا انتقال تقریباً 55 سال کی عمر میں ہوا تھا۔ انہوں نے سن 1993 میں طالبان کی افغانستان میں سوویت یونین کے ایک دہائی طویل قبضے کے بعد جاری رہنے والی تباہ کن خانہ جنگی کے دوران تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔
ملا عمر کی قیادت میں طالبان نے اپنی طرز کی انتہائی سخت اسلامی حکمرانی متعارف کی۔ خواتین کی عوامی زندگی میں شمولیت روک دی گئی، پھانسی دینے اور کوڑے مارنے سمیت سخت عوامی سزائیں متعارف کروائی گئیں۔ ملا عمر کی قبر پر ہونے والی تقریب صوبائی طالبان حکام کی اس تردید کے ایک روز بعد ہوئی کہ افغانستان کےشمال میں واقع پنجشیر وادی میں مزاحمتی ہیرو احمد شاہ مسعود کے مقبرے کی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔