ماؤں، بہنوں اور بچوں کی چیخیں سن کر ہمارے کلیجے پھٹ چکے ہیں – سردار اختر مینگل

486

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن پاکستان اسمبلی سردار اختر مینگل نے ضلع مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار مقصد نہیں، اصل منزل بلوچ قوم کی حق حاکمیت ہے، بی این پی 1970ء کے نیشنل عوامی پارٹی کا تسلسل ہے جو آج تناور درخت بن چکا ہے جس کے سائے میں ہر بلوچ جی رہا ہے، ہم اقتدار اور کرسی کے پجاری نہیں ہے ہم عزت کے پجاری ہے جو ہمیں عزت دے گا ہم اس کے نسلوں تک عزت کرینگے۔

اختر مینگل نے کہا کہ اقتدار اور کرسی کی خاطر لوگ حد پار کرتے ہیں حکومت چھین جانے کے بعد لانگ مارچ کرتے ہیں وزارت چھن جانے پر بھوک ہڑتال کرتے ہیں ،1998ء میں اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے پارٹی کو تقسیم کرکے دولخت کیا ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا مگر بلوچستان میں بلوچوں کی نسل کشی، آپریشن، نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرنے سڑکوں اور ویرانوں میں نوجوانوں کے مسخ شدہ لاشیں گرانے پر ضرور احتجاج کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی بلوچ قوم کے ننگ و ناموس ساحل وسائل پر کبھی سودے بازی نہیں کی، آج اقتدار کے خاطر جو لوگ ایک دوسرے کو اسٹیج اور ٹی وی چینلز پر گالیاں دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسنگ پرسن کمیشن کے ٹیم میں شامل اسلام آباد سے آئے ہوئے ٹیم ممبروں نے ہمیں کہا کہ مسنگ پرسن کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے خواتین، بچوں اور ماؤں کی فریاد اور چیخوں سے ہمارے کلیجے منہ میں آگئے میں نے ان سے کہا کہ یہ تو ایک دن تھا مگر ہم کئی سال سے اسی کرب سے گزر رہے ہیں، لاپتہ نوجوانوں کے ماؤں بہنوں بچوں کی چیخیں سن سن کر ہمارے کلیجے پھٹ چکے ہیں مگر حکمرانوں نے کھبی ہمارے چیخیں نہیں سنی۔

سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ خدا کی قسم اگر ہمیں وزیر اعظم بنایا جائے مجھے قبول نہیں مگر مجھے اس بوڑھی ماں کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو عزیز ہیں جو اپنے لاپتہ بیٹے کے لیئے نکلی ہو جن کی بیٹے بازیاب ہوجائے ہمیں اقتدار میں شراکت داری نہیں چاہے اس کے بدلے ہمیں ہمارے لاپتہ نوجوان چاہے۔

انہوں نے کہا کہ حکمران طبقے کو اپنے اقتدار کے لیئے ایک سال یا پانچ سال تک انتظار نہیں کر سکتے مگر ان بلوچ ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بچوں سے پوچھوں جو اپنے پیاروں کے لیئے 10 سے 15 سالوں سے انتظار کررہے ہیں اور انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے پیارے زندہ ہے یا نہیں اور بیٹیوں کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ بیوہ ہو چکے ہیں یا ابھی تک ان کے سہاگ زندہ و سلامت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پھر بھی کہتے ہیں کہ ان ظلم و زیادتیوں پر اپنے زبان بند رکھیں مگر ہم بے ضمیر مردہ نہیں ہیں اور ابھی تک ہمارے ضمیر زندہ ہے۔ مشرف آمریت کے دور میں ہمارے 700 سے زائد رہنماء اور کارکن جیلوں کی سلاخوں میں پابند سلاسل رہے سیکڑوں سیاسی رہنماء اور کارکن جاں بحق کر دیئے مگر میں ان سے پوچھتا ہوں جو قوم پرستی کے دعوے دار ہے ان کے ناک سے خون کا ایک قطرہ تک نہیں گرا اور نہ ہی ان کے ایک مرغی کسی نے بند نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی ایسے بے ضمیروں کے سامنے جواب دہ بھی نہیں مگر ہم بلوچ قوم کے سامنے ضرور جواب دہ ہیں تاریخ گواہ ہے بی این پی بلوچستان کے ننگ و ناموس ساحل وسائل کی کھبی سودا نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر آنے والے الیکشن کے موقع پر بعض لوگ ہمیں کہتے ہیں ہم الیکشن آنے والے ہیں تو اپنے لب و لہجے تھوڑا نرمی اختیار کرو مگر میں ان سے کہتا ہوں ہمیں بلوچ قوم کی ننگ و ناموس عزیز ہے ہمیں اقتدار و کرسی وزارت و مراعات کے لیے اپنے نام کسی کی فہرست میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ ہم بڑے بڑے دعوے نہیں کرتے کہ ہم یہاں شہد و دودھ کی نہریں بہائینگے مگر یہ دعوے ضرور کرتے ہیں کہ ہمارے کارکن آنکھیں اٹھا کر چلتے ہیں، ہم اقتدار میں اپنے وطن اور یہاں کے مفلوک الحال عوام کے لیئے کچھ کر سکیں یہاں کے لوگ بجلی گیس پینے کی پانی جیسے زندگی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔