لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے – آمنہ مسعود جنجوعہ

328

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کی بازیابی کی تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس (ڈی ایچ آر) کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر تشکیل دی گئی کمیٹی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عدالت عالیہ کے دلیرانہ اقدامات سے جبری گمشدگی کا مسئلہ حل ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ذمہ داروں کو پورا موقع دے رہی ہے کہ وہ خود ہی لاپتہ افراد کو رہا کر دیں، اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، ابھی تک عدالت نے ریاستی اداروں کے سربراہوں کو طلب نہیں کیا، امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور عدالتی اقدامات کی بدولت اس دیرینہ مسئلے کا خاتمہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے طلبہ کی جبری گمشدگی کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے سربراہ سردار اختر مینگل ہیں اور ممبران میں سینیٹر میاں رضا ربانی، سینٹر کامران مرتضیٰ، سینٹر مشاہد حسین سید، اسد عمر، افراسیاب خٹک، ناصر محمود کھوسہ، علی احمد کرد، حفیظ الرحمٰن چوہدری، ڈاکٹر اسما فیاض، سیکرٹری وزارت داخلہ، سیکرٹری، وزارت انسانی حقوق شامل ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق کمیٹی 15 سے 17 نومبر بلوچستان کا دورہ کرے گی اور بلوچ طلبہ سمیت تمام جبری گمشدہ افراد کے کیمپ کا دورہ کرے گی، اسکے علاوہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران تنظیم کے رہنماوں اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے ملاقات بھی کرینگے۔ اس کمیٹی کا مقصد جبری گمشدگی کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔

ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے کے حل کے لیے بنائی گئی کمیٹی خوش آئند ہے کیونکہ جبری گمشدگیاں ملک کے کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ملک بھر میں شہری اس مسئلے کا شکار ہو رہے ہیں۔سالہا سال سے لوگ جبری لاپتہ ہیں،نہ جرم کا پتہ نہ کوئی اتہ پتہ کہ یہ لوگ کہاں ہیں اور ان کا قصور کیا ہے؟ ان لوگوں کو رہا کیا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے اور گھر والوں کو بے یقینی کی سولی پر لٹکانا بند کیا جائے،ایسے ہزاروں خاندان ہیں جو اس کرب سے گزر رہے ہیں، انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ کب رکے گا؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ کمیٹی کے ممبران کا جبری گمشدگی کے خاتمے کی جدوجہد کے لیے بہت اہم کرداررہا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لئے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات تجویز کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح سینٹ کی سب کمیٹی جو پورے پاکستان کے لیے کام کر رہی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنی سفارشات مکمل کر کے ہمارے سامنے لے کر آئے گی تاکہ عوام الناس کو پتا چل سکے کہ کمیٹی کی طرف سے اس مسئلے کا کیا حل تجویز کیا گیا ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے وزیر اعظم کو طلب کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اس مسئلے کے حل کا وعدہ کیا تھا، دیکھنا ہوگا کہ ان کی طرف سے کیا اقدامات اٹھائے گئے؟ چیئر پرسن ڈی ایچ آر کا کہنا تھا کہ جبری لاپتہ افراد کے لئے قائم کردہ کمیشنوں اور کمیٹیوں کا آج تک ایک ہی نتیجہ نکلا ہے کہ ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آج بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک کمیشن صرف نام کی حدتک موجود ہے مگر اس کمیشن کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے، کمیشن اپنے ہی جاری کردہ پروڈکشن آڈر پر بھی عملدرآمد کرانے کی سکت نہیں رکھتا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے بھی ریمارکس دیئے تھے کہ کمیشن آف انکوائری کا مینڈیٹ ذمہ دار افراد یا تنظیموں کی ذمہ داری کا تعین کرنا تھا لیکن گزشتہ گیارہ سال سے اس کی جانب سے کوئی سفارشات پیش نہیں کی گئیں۔ ورثا کی تمام تر امیدیں عدالتوں سے وابستہ ہیں، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ان کا کہنا تھا 14 نومبر 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جبری گمشدہ افراد کے کیسسز کی سماعت ہے جن میں صادق آمین، زاہد آمین اور مدثر نارووغیرہ کے کیس شامل ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ عدالت کی طرف سے ایسے ہی کارآمد فیصلے سامنے آئیں گے اور وطنِ عزیز سے جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ ہو گا۔

انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ آخری لاپتہ فرد کی بازیابی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔