دودا فلم نے لیاری کا تعارف لیاری سے کروایا
تحریر: شیر خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کہتے ہیں کہ لیاری کا ایک غریب نوجوان گلیوں اور کچرہ دانوں میں سگریٹ کی ڈبیاں ڈھونڈتا تھا. لیکن وہ لیاری کی چھوٹی اور بڑی بڑی گلیوں اور کچرہ دانوں سے سگریٹ کی ڈبیاں اپنے چرس و تریاق یا خاندان کے پیٹ کا آگ بجھانے کے لیے نہیں جمع کررہا تھا بلکہ اس عظیم نوجوان کے دل میں ایک عظیم مقصد تھا۔ وہ سگریٹ کی ڈبیاں کاٹ کر کارڈ بنا کرسید ظہور شاہ ہاشمی کی تحقیق پر مشتمل بلوچی ڈکشنری سید گنج کے حروف کو ترتیب دیتا تھا۔ وہ ادیب کس قدر مالی مشکلات کا شکار تھے کہ وہ کاغذ خریدنے کی قوت بھی نہیں رکھتے تھے۔ اگر نام دیکھیں تو یہ پروفیسر صبا دشتیاری صاحب تھے۔
سید ظہور شاہ ہاشمی نے جن مشکل حالات میں بلوچی زبان پر تحقیق کا کام مکمل کیاتھا، وہ کرب ناک تو تھے لیکن صبا صاحب نے ان کی تحقیق کو کتابی شکل تک لانے میں بھی ایسے ہی حالات میں اہم ترین کردار ادا کیا.
درحقیقت لیاری وہ جگہ ہے جہاں ہمارے سیاسی، ادبی، جدوجہد کرنے والوں اور فنکاروں نے اپنے وقت گزارے ہیں۔ لیاری کے ساتھ ساتھ ہم کراچی کو “The city of Baloch politics” اس لیے کہتے ہیں کہ وہاں بلوچ قومی لیڈروں اور سیاسی کارکنان اپنی جدوجہد کو مکمل شکل دینے میں کامیاب ہوئے اور بلوچ عوام کے اندر ایک تجسس و تحقیق کا رجحان رونما ہوا۔ کئی نڈر انقلابی خواتین، مرد و نوجوانوں کی نام سامنے آتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ اس چھوٹی سی تحریر میں میں پورے لیاری کے کرداروں اور ان کے جدوجہد کے بارے میں نہیں لکھ سکتا ہمارا موضوع بھی دودا فلم ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ “دودا فلم” بھی لیاری کے جدوجہد کرنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں مختلف قسم کے نوجوان ابھر کر اپنے قوم و علاقے یا پورے بلوچستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ وہاں لڑکیاں بھی فٹبالرز بن چکے ہیں۔ میں خود کئی ایسی لڑکیاں دیکھ چکا ہوں جنہیں دیکھ کر انسان کے اندر ایک نئی امید آتی ہے۔ یعنی وہ امید جن کیلیے دن رات مسلسل جدوجہد کریں۔۔۔کل رات “دودا فلم” کو دکھنے گیا وہاں مجھے ہنسنے کے ساتھ ساتھ آنسوؤں کا بھی امید تھا لیکن میں نہ ہنس سکا اور نہ رو سکا وجہ یہ ہے کہ میں فلم کے کلیمکس کی دوران گیا تھا۔ دیکھ دیکھ کر مجھے اچانک ماں ناول کے الفاظ یاد آئے جہاں میکسم گورکی نے روس کی گلیوں کی باتیں بہت خوبصورت طریقے سے کیئے تھے۔ لوگ ایک انتشار کا شکار ہوئے جب زار کی حکومت نے وہاں کے لوگوں کے لیے ایک لانت یعنی ” ڈرگ” یا “شراب” مسلط کی جن کی وجہ سے کئی لوگ ایسے تھے کہ بازاروں اور گلیوں میں رات کے اندھیرے میں ادھر ادھر گوھوم رہے تھے، کئی مائیں اپنے پیاروں کو نشے کی حالت میں دیکھ کر روتے رہے تھے۔
آج وہی لعنت ہمارے قوم کے نوجوانوں کیلیے وبا کی طرح ہے، کئی نوجوان مرد و خواتین ڈرگز کے شکار ہورہے ہیں۔ دودا فلم کو دیکھ رہا تھا جہاں دودا کا تضاد محبوبہ سے شروع ہوا اور بہن نے خودکشی کرلی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ دودا ایک فلم نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، نشے کے خلاف ایک آواز ہے، محکوم قوم کے نوجوانوں کیلیے ایک خوبصورت مثال ہے، اور موجودہ مایوسں لوگوں کیلیے ایک امید ہے۔
دودا ایک چیمپیئن بننا چاہتا ہے لیکن جھوٹا الزام لگا کر انہیں باکسنگ کی میدان سے نکال کر ‘نشے کی دنیا’ میں دکھیلتے ہیں لیکن وہ وقت جلد ہی آتا ہے کہ الزام لگانے ولا انسان جھوٹا استاد نکل جاتا ہے۔ آخر میں دودا محبوبہ اور حقیقی استاد کے کندوں پر چل رہے ہوتے ہیں کہ پیچھے جھوٹا انسان خود کو پستول سے مارتاہے۔
اس فلم کا تھیم ‘جاگیردادی نظام،’ جھوٹا استاد، خواہشات، نشے اور بہت سی ایسی موضوعات پر ہے جہاں محکوم قوم کے نوجوان اسکا شکار ہورہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں