میں کل تک آصف اور رشید کے لئے آواز بلند کرتی رہی، انصاف مانگتی رہی مگر بجائے اس کے کہ مجھے انصاف مہیا کیا جاتا میرے خاندان سے مزید دو افراد کو جبراً لاپتہ کردیا گیا – یہ کہنا تھا جبری گمشدگیوں کیخلاف جدوجہد کرنے والی سائرہ بلوچ کی۔
سائرہ بلوچ نے خضدار میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ آئے روز سنگین ہوتا جاتا رہا ہے ، لوگ جبراً لاپتہ کئے جارہے ہیں، اُن پر بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں اور انہیں جعلی مقابلوں میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں قتل بھی کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سائرہ بلوچ جو کہ چار سال سے زائد جبراً لاپتہ ہوئے اپنے بھائی آصف بلوچ اور کزن رشید بلوچ کی بازیابی کے لئے مسلسل جدوجہد کررہی ہوں۔ میں نے ان چار سالوں میں ہرطرح کی کوششیں کیں ہیں ، ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ انصاف مل سکے مگر کچھ نہ ہوسکا۔
“میرے بھائی آصف اور کزن رشید بلوچ کو 31 اگست 2018 کے دن انکے دیگر نو دوستوں سمیت نوشکی زنگی ناوڑ سے ایف سی اہلکار اور خفیہ اداروں کے کارندوں نے جبراً لاپتہ کیا اور پھر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ متعدد دن گزرنے کے بعد سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر انگی گرفتاری کو سی ٹی ڈی اور پولیس کی مشترکہ کاروائی قرار دیکر ، ان پر جھوٹے الزامات عائد کئے گئے، جبکہ آج تک انہیں منظرعام پر بھی نہیں لایا گیا۔”
انہوں نے کہا کہ میں وہی سائرہ بلوچ ہوں جو کل تک محض آصف اور رشید کے لئے آواز بلند کرتی رہی، انصاف مانگتی رہی مگر بجائے اس کے کہ مجھے انصاف مہیا کیا جاتا میرے خاندان سے مزید دو افراد کو جبراً لاپتہ کردیا گیا۔
“میرے دونوں کزن منان بلوچ ولد محمد موسیٰ اور سرفراز ولد نیاز احمد خضدار کے علاقے نوغے میں رہائش پزیر ہیں، دونوں کزن بے روزگاری کی وجہ سے شہر میں میڈیکل اسٹورز پر کام کرتے ہیں جبکہ وہ فٹبال اور کرکٹ کے بھی شوقین ہیں، باقاعدہ فٹبال ٹیموں میں بھی بطور ممبر موجود رہے ہیں۔ 30 اکتوبر 2022 کے دن منان اور سرفراز خضدار کے علاقے نال ایک فٹبال میچ کھیلنے گئے ہوئے تھے ، میچ کھیلنے کے بعد واپسی پر فیروز آباد کے قریب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انہیں جبراً حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ ہم نے اس جبری گمشدگی کے خلاف خضدار پولیس تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروائی تھی۔”
سائرہ بلوچ نے کہا کہ آج دس دن گزرنے کے بعد کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں میرے کزن منان اور سرفراز کے گرفتاری کو ظاہر کیا گیا ہے جبکہ معمول کی طرح ان پر جھوٹے الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں کہ “ان سے پانچ عدد دستی بم، 1200 گرام C4 دھماکہ خیز مواد، 2 کلو گرام دیگر دھماکہ خیز مواد، چار عدد الیکٹرک ڈیٹونیٹر، ایک عدد ریموٹ کنٹرول کٹ، ایک عدد الفا فائر سسٹم” برآمد ہوئے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا سارا مواد کوئی شخص موٹر سائیکل پر قلات سے کوئٹہ کیسے لے جاسکتا ہے؟ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
“کوئٹہ میں داخل ہونے کے لئے جو راستہ ہے پھر داخلے کے بعد ہر دس قدم پر ایف سی چیک پوسٹس ہیں، اور یہ سب جانتے ہوئے ایک انسان کیا سوچ کر موٹرسائیکل پر بے خوف ہوکر بغیر کچھ سوچے چلا جاتا ہے؟ یہاں مضحکہ خیز باتیں ہورہی ہیں۔ یہ الزامات جھوٹے تو ہیں مگر لاقانونیت کے اس سماج میں قابل تشویش بھی ہیں۔”
سائرہ بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست کے عسکری اور خفیہ اداروں نے چار سال پہلے کی کہانی کو دوبارہ دہرایا ہے۔ چار سال پہلے میرے بھائی آصف اور رشید کو انکے دوستوں سمیت نوشکی زنگی ناوڑ سے لاپتہ کیا گیا مگر بعد میں انکی گرفتاری کو نوشکی اور کوئٹہ ہزار گنجی سے ظاہر کیا گیا ، اُس وقت بھی یہی الزامات عائد کئے گئے کہ وہ کسی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جبکہ ان سے کہی طرح کے اسلحہ برآمد کئے گئے ہیں۔ یہاں پھر ایک بات مشکوک ہوجاتی ہے کہ گیارہ لوگوں کے پاس اسلحہ موجود ہونے کے بعد وہ خود کو عسکری قوتوں کے حوالے کیسے کردیتے ہیں؟ اگر وہ کسی کالعدم تنظیم سے ہوتے ، انکے پاس سے اسلحہ برآمد ہوتا تو سالوں بعد انہی کے ساتھ لاپتہ ہوئے کچھ افراد بازیاب کس بنا پر کئے گئے ؟ کیوں کہ جو الزامات لگائے گئے تھے اگر وہ سچ ہوتے تو شاید یہ لوگ کبھی بازیاب نہیں ہوپاتے۔ البتہ چار سال بعد آج پھر اُس کہانی کو دہرایا جاتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کل آصف اور رشید تھے آج منان اور سرفراز ہیں۔ الزامات وہی ہیں، کاروائیاں وہی جھوٹے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے توسط سے مطالبہ کرتی ہوں کہ آپ میری آواز بنیں، ہم پر مسلط کی گئی اس ظلم کے خلاف ہماری آواز کو اُن اداروں تک پہنچانے میں مدد کریں جو ہمیں انصاف دلاسکتی ہیں، میرے بھائی ، میرے کزن سے منسلک صداقت کے ساتھ کاروائی کریں، ان پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کریں۔ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، قانون کے مطابق سزا دی جائے مگر یوں لوگوں کو لاپتہ کرنا اور پھر مہینوں سالوں ماورائے عدالت قید رکھنا، ان پر تشدد کرنا یا پھر جعلی مقابلوں میں نام کمانے کے لئے بےدردی سے قتل کردینا ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔