بولان میں فوجی آپریشن اور خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی پر مین اسٹریم میڈیا کی خاموشی ثابت کرتی ہے کہ ریاست نے میڈیا کو کس طرح قید رکھا ہے۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان میں سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیرین مزاری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کیا ہے۔
شیرین مزاری نے لکھا کہ “بولان اور آس پاس کے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، خاص طور پر کم از کم گیارہ خواتین، کمسن لڑکیوں اور بچوں کی جبری گمشدگی کے بارے میں سن کر دل دہل گیا۔”
انہوں نے مزید کہا ہے کہ “اس اندھا دھند فوجی آپریشن پر مین اسٹریم میڈیا کی خاموشی ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ ریاست نے میڈیا کو کس طرح قید کر رکھا ہے۔”
خیال رہے گذشتہ دنوں بولان و گردنواح میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں گن شپ ہیلی کاپٹروں سمیت جیٹ طیاروں کی پروازیں بھی دیکھنے میں آئی جبکہ فوج کیجانب سے متعدد علاقوں میں خواتین و بچوں کو محاصرے میں لیا گیا۔
فوجی آپریشن اور خواتین و بچوں کو حراست میں رکھنے پر مختلف مکاتب فکر کے افراد اپنے خدشات کا اظہار سمیت حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری خرم علی نے لکھا “بولان میں جاری فوجی آپریشن میں جس طرح خواتین کے ساتھ تشدد کی تصاویر سامنے آ رہی ہیں وہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے حوالے سے خطرناک زیادتیوں کے دعوے بالکل درست ہیں۔ یاد رکھیں جبر مزاحمت کو صرف بڑھاتا ہے کبھی دبا نہیں پاتا۔”
نیشنل پارٹی کے رہنماء و سینیٹر میر کبیر نے کہا ہے کہ “بولان سے متعدد بلوچ خواتین و بچوں کو لاپتہ کرنے کے عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے نفرتوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ طاقت کے استعمال اور انسانی حقوق کی پامالی سے بلوچستان کا مسئلہ نہ پہلے حل ہوا نہ اب ہوگا۔ بلوچستان میں طاقت کا استعمال ترک کرکے سنجیدہ بامعنی مذاکرات کیے جائیں۔”
خیال رہے بولان آپریشن کیخلاف کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز و بلوچ یکجہتی کمیٹی کیجانب سے مشترکہ احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ میں بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے احتجاج کیا جائے گا۔