بولان آپریشن: زیر حراست 13 خواتین و بچوں کی شناخت ہوگئی

634

بلوچستان کے علاقے بولان میں جاری فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی فورسز نے خواتین اور بچوں کو زیر حراست رکھا ہیں۔

بولان و گردنواح میں فوجی جارجیت کے دوران حراست میں لئے گئے درجنوں افراد میں سے 13 خواتین و بچوں کی شناخت اب تک ہوچکی ہے جن کی تصدیق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے کی ہے-

بولان آپریشن کے دوران پاکستان فورسز کے تحویل میں لیے گئے خواتین و بچوں میں سے زرگل مری، حنیفہ مری، در خاتون مری، ماہسو سمالانی، گل بی بی سمالانی، سمو سمالانی، زر بخت سمالانی، بانی سمالانی، سمیدہ سمالانی، فریدہ سمالانی، راجی سمالانی اور چار سال سے لاپتہ رکھیہ سمالانی کی اہلیہ مہنا سمالی اور بیٹا کلیم سمالانی شامل ہیں-

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بھی خواتین و بچوں کے زیر حراست ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم علاقے میں جاری فوجی آپریشن اور مواصلاتی نظام نہ ہونے کی وجہ دیگر کی شناخت میں مشکلات کا سامنا ہے-

پانچ روز سے جاری آپریشن بولان کے علاقوں کمان، اوچ کمان، یخو، بزگر و دیگر سمیت ہرنائی سے متصل پہاڑی علاقوں میں کی جارہی ہے جبکہ مختلف علاقوں میں UAVs، لڑاکا طیارے، گن شپ ہیلی کاپٹر اور SSG کمانڈوز آپریشن میں شامل ہیں۔

دوسری جانب آمدورفت کے تمام راستے بند ہونے کی وجہ سے، علاقے میں شدید غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ پورے علاقے میں کرفیو کا سا سماں ہے۔ آبادیوں پر سخت پھیرے دیئے جارہے ہیں۔

آج پانچویں روز بھی مختلف مقامات پر ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ و بمباری جاری ہے جسکی وجہ سے عام شہریوں کی جانی و مالینقصانات کی اطلاعات آرہی ہیں۔

بولان و گردنواح میں آپریشن کا آغاز ایسے وقت کیا گیا ہے جب بلوچ لبریشن آرمی نے گذشتہ دنوں زیر حراست دو پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی رہائی کے بدلے اپنے مطالبے کے لیے 4 نومبر تک کا آخری الٹی میٹم دیا۔

گذشتہ دنوں بی ایل اے کے ترجمان نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک اور بیان میں کہا کہ بی ایل اے پاکستانی فوج کو جنگی قیدیوں کے تبادلے کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت دیتی ہے، جس کے فوری بعد بی ایل اے کے زیر حراست جنگی قیدیوں جونیئر کمیشنڈ آفیسر کلیم اللہ اور ملٹری انٹلجنس ایجنٹ محمد فیصل کو بلوچ قومی عدالت سے ملنے والی سزا پر فوری عملدرآمد کی جائیگی-

یاد رہے کہ بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں متعدد بار پاکستانی فوج پر یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ بلوچ مزاحمتکاروں پر آپریشن کے نام پر بلوچستان کے دیہی علاقوں کے عام شہریوں پر بمباری کی جاتی ہے اور اس دوران گرفتار و جانبحق افراد کو مزاحمتکار ظاہر کیا جاتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف بلوچستان نے فوجی آپریشن اور خواتین و بچوں کو حراست میں لینے پر تشویش کا اظہار کرتے فوری رہائی کی اپیل کی ہے۔